بھارت میں انسداد بدعنوانی بل، سول سوسائٹی کے تحفظات
4 اگست 2011لوک پل نامی بل، جس کا کافی عرصے سے چرچا تھا کے تحت شہری حال ہی میں قائم کیے گئے محتسب کو وفاقی وزراء اور اعلٰی سرکاری افسروں سمیت دیگر عہدیداروں کے خلاف شکایات درج کرا سکتے ہیں۔
محتسب کا انتخاب اعلٰی ترین عدلیہ سے کیا جائے گا اور ان کی معاونت کے لیے 10 افراد کو تعینات کیا جائے گا، جن کا تعلق عدلیہ سے ہوگا یا پھر وہ ایسے افراد ہوں گے جن کی دیانت داری شک و شبہ سے بالاتر ہوگی۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بل پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بل کی تیاری کے عمل کے دوران انہیں شامل کرنے کے باوجود ان کی آراء کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
انہوں نے خاص طور پر برسر اقتدار وزیر اعظم اور اعلٰی عدلیہ کے اراکین کو محتسب کے دائرہ کار سے باہر رکھنے کے فیصلے پر تنقید کی۔ پارلیمان کے اندر اراکین کے رویوں کو بھی استثناء حاصل ہے۔
ماضی میں بھارت میں بدعنوان اعلٰی سرکاری حکام کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کی روایت کوئی اتنی تابناک نہیں۔
چھ دہائیوں میں صرف ایک بار 1949ء میں پچیس ہزار رشوت لینے پر ایک سینئر سیاست دان راؤ شیو بہادر سنگھ کو رقم کی خورد برد کے الزام میں جیل کی سزا سنائی گئی۔
موجودہ قوانین کے تحت کسی حاضر بیوروکریٹ یا وزیر کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے قبل حکومت کی منظوری درکار ہے۔
سول سوسائٹی کی جانب سے بل کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں کلیدی کردار انا ہزارے نے ادا کیا، جنہوں نے اپریل میں 98 گھنٹے کی بھوک ہڑتال میں حکومت سے اس ضمن میں مراعات حاصل کیں اور ملک بھر میں ان کی حمایت کی گئی۔
اٹھہتر سالہ ہزارے نے اراکین پارلیمان سے کہا ہے کہ وہ اس بل کو مسترد کر دیں کیونکہ بل کا حتمی مسودہ صرف حکومت کے کھوکھلے وعدے پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اپنی بات نہ ماننے کی صورت میں ایک بار پھر برت رکھنے کی دھمکی دی۔
بھارت میں بدعنوانی بڑے بڑے سرکاری ٹھیکوں سے لے کر روز مرہ کی چھوٹی موٹی رشوت کی شکل میں ہر جگہ موجود ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عدنان اسحاق