بھارت میں دلتوں کی ملک گیر ہڑتال: کئی جگہ کرفیو، ہلاکتیں
2 اپریل 2018مظاہرین دلتوں اور قبائلیوں پر ہونے والے مظالم کی روک تھام سے متعلق قانون (SC/ST Prevention of Atrocities Act 1989) میں ترمیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے خلاف ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئے، جن کی کئی سیاسی جماعتیں حمایت بھی کر رہی ہیں۔
گھوڑا کیوں خریدا، بھارت میں دلت کا قتل
دلتوں پر حملوں میں اضافہ، مودی کی مشکلات میں اضافے کا امکان
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے گرچہ صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے آج پیر ہی کے روز بھارتی سپریم کورٹ میں اس عدالت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی ایک درخواست بھی دائر کر دی تاہم عدالت عظمیٰ نے اس پر فوری سماعت سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس بارے میں قانون سازی ملکی پارلیمان کا کام ہے۔
تشدد، آتش زنی اور لوٹ مار کے سب سے زیادہ واقعات مدھیہ پردیش اور پنجاب کی ریاستوں میں پیش آئے۔ مدھیہ پردیش کے شہروں گوالیار اور مورینا میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم میں چار افراد گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔ دہلی کے قریب میرٹھ میں بھی گولی لگنے سے چار افراد زخمی ہو گئے، جن میں سے دو کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ میرٹھ میں مظاہرین نے ایک پولیس چوکی کو آگ بھی لگا دی۔ اسی طرح ریاست راجستھان میں بھی بدامنی کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔
ملکی دارالحکومت نئی دہلی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں بھی مظاہروں نے پرتشدد صورت اختیار کر لی۔ مظاہرین نے کئی اہم شاہراہوں کو بھی بند کر دیا۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرین ریلوے لائنوں پر بھی بیٹھ گئے، جس کی وجہ سے ٹرینوں کی آمد و رفت بھی متاثر ہوئی۔ پنجاب میں تو موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی گئی جب کہ آج پیر کے روز ہونے والے سالانہ امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہے؟
بھارت: آئندہ صدر کم تر سمجھی جانے والی برادری سے
بھارتی اقتصادی ترقی: دلت، قبائلی اور مسلمان سب سے پیچھے
بھارتی سپریم کورٹ نے 20 مارچ کو اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ دلتوں یا قبائلیوں پر زیادتی کرنے والے کسی بھی ملزم کو دلتوں اور قبائلیوں پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کے قانون کے تحت براہ راست گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی سطح کے کسی افسر کی طرف سے پورے معاملے کی ابتدائی تفتیش کے بعد ہی کسی ملزم کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا جا سکے گا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ بعض معاملات میں تو کسی ملزم کی پیشگی ضمانت بھی منظور کی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تقریباً تمام دلت اور قبائلی تنظیموں حتیٰ کہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے متعدد دلت ممبران پارلیمان نے بھی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف ظلم و زیادتی کے واقعات بڑھ جائیں گے اور اگر ملزمان کی پیشگی ضمانت کی حوصلہ افزائی کی گئی، تو مجرموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ ان رہنماؤں کا الزام ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں موجودہ ملکی حکومت دلتوں اور قبائلی باشندوں کے مفادات کو نظر انداز کر رہی ہے۔
دلتوں کے خلاف مبینہ زیادتی
بھارت میں سماجی اور ہندو مذہب کے لحاظ سے دلتوں کو سب سے نچلے درجے کا طبقہ سمجھا جاتا ہے۔ دلتوں کے خلاف مبینہ ظلم و زیادتی کے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ حتیٰ کہ انہیں شادیوں میں پٹاخے چلانے، ناچنے گانے اور گھوڑے پر چڑھنے بلکہ کوئی گھوڑا خریدنے کی پاداش تک میں بھی ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے دلتوں کی فلاح و بہبود کے لیے چلائی جانے والی درجنوں قومی اور صوبائی سطح کی اسکیموں کے باوجود ایسے بھارتی شہریوں کی حالت میں کوئی قابل ذکر بہتر ی نہیں آئی۔ ملک کی آزادی کو ستر برس سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور زیادتی کاسلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2016ء میں دلتوں کے خلاف مظالم کے 40801 مقدمات درج کرائے گئے جب کہ 2015ء میں یہی تعداد 38670 رہی تھی۔ ان میں سے سب سے زیادہ واقعات دلت خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق دلتوں کے ساتھ زیادتی کے سب سے زیادہ یعنی 25.6 فیصد واقعات ریاست اتر پردیش میں ہوئے جب کہ بہار میں ایسے 14 فیصد اور راجستھان میں 12.6فیصد واقعات درج کرائے گئے۔
بھارتی سپریم کورٹ کا گائے ذبح کرنے پر ملک گیر پابندی سے انکار
سرکردہ سماجی کارکنوں کے مطابق جرائم کے ایسے واقعات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ دلتوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کافی دباؤ اور دوڑ دھوپ کے بعد بھی صرف پچاس فیصد واقعات میں ہی باقاعدہ مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور اگر کوئی مقدمہ درج ہو بھی جاتا ہے، تو متعلقہ ملزم کے خلاف بہت معمولی دفعات لگائی جاتی ہیں۔ ان کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجرموں کو سزائیں سنانے جانے کی شرح صرف 15.7 فیصد بنتی ہے۔
قبائلی: بھارت کے اصل باشندے
قبائلی لوگ بھارت کے اصل باشندے کہلاتے ہیں۔ لیکن آج وہ مبینہ ظلم و زیادتی اور استحصال کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ بھارت کی 1.3 ارب کی مجموعی آبادی میں ان کا حصہ تقریباً 8.6 فیصد ہے۔ لیکن وہ دلتوں کی طرح ملک کے مختلف حصوں میں رہنے کے بجائے بعض مخصوص علاقوں میں ہی مرکوز ہیں۔ ان کی پچیس سے پینتیس فیصد تک آبادی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور جھاڑکھنڈ میں آباد ہے۔ اوڈیشہ میں ان کی آبادی بیس فیصد کے قریب ہے جب کہ راجستھان، کرناٹک، آندھرا پردیش، گجرات اور بہار میں بھی ان کی آبادی کافی زیادہ ہے۔
اچھے نمبر لینے پر دلت لڑکے کی پٹائی
مردہ گائے کی لاش کیوں نہ اٹھائی، دلت حاملہ خاتون پر تشدد
قبائلیوں کا اصل ذریعہ معاش جنگلاتی پیداوار اور مصنوعات ہیں۔ لیکن ترقی کے نام پر ان کو ان کے اصل مسکن یعنی جنگلوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے قبائلیوں کے لیے کئی طرح کے سماجی اور اقتصادی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور قبائلیوں کے درمیان آئے دن تصادم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014ء میں قبائلیوں کے قتل کے157اور قبائلی خواتین کی عصمت دری کے 925 واقعات درج کرائے گئے۔
ملکی وزیر داخلہ کی اپیل
وفاقی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے تمام سیاسی جماعتوں، دلتوں اور قبائلیوں کی تنظیموں سے امن برقرار رکھنے اور تشدد کا سلسلہ ختم کر دینے کی اپیل کی ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا، ’’ہم نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔ میں تمام سیاسی جماعتوں اور گروپوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ امن برقرار رکھیں اور تشدد کو ہوا نہ دیں۔‘‘