بھارتی دفاعی وفد چین کے اہم دورے پر
19 جون 2011اِس آٹھ رکنی وفد کی قیادت میجر جنرل گرمیت سنگھ کر رہے ہیں۔ بیجنگ سے اپنے دورے کا آغاز کرنے والا یہ وفد اپنے پانچ روزہ دورہء چین کے دوران ارومچی بھی جائے گا۔
گزشتہ سال جولائی میں بھی ایک بھارتی دفاعی وفد کو چین کا دورہ کرنا تھا، جس کی قیادت لفیٹیننٹ جنرل بی ایس جسوال کو کرنا تھی تاہم چین کی جانب سے اُنہیں باقاعدہ ویزہ جاری نہ کیے جانے پر نہ صرف یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا تھا بلکہ بھارت نے چین کے ساتھ تمام تر دفاعی دورے معطل کر دیے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک تجزیے کے مطابق اِس تازہ دورے کے دوران کوئی اہم پیشرفت نہ ہونے کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو گی کہ بیجنگ حکومت بھارت کے کٹر حریف پاکستان کے ساتھ دوستی کے ’اٹوٹ رشتے‘ کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھا رہی ہے۔
اِس کے باوجود تجزیہ نگاروں کا کہنا یہ ہے کہ بھارتی دفاعی وفد کا یہ دورہ دو ایسی ابھرتی اقوام کے درمیان توازن کے قیام کی جانب ایک قدم کی حیثیت رکھتا ہے، جو دُنیا میں اثر و رسوخ اور وسائل کے حوالے سے ایک دوسرے کی حریف ہیں۔
نئی دہلی حکومت کے خیال میں چین بحیرہء ہند کے ساتھ ساتھ فوجی اڈے قائم کرتے ہوئے بھارت کو گھیرے میں لینا اور اُسے جنوبی ایشیا تک ہی محدود کر دینا چاہتا ہے۔ روئٹرز کے تجزیے کے مطابق چین پاکستان کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور واحد بڑی طاقت ہے، جس نے پاکستان میں اُسامہ بن لادن کے دریافت ہونے پر اسلام آباد حکومت کو کھلے عام ہدفِ تنقید بنانے سے گریز کیا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان تجارتی اور سفارتی تعلقات تو زوروں پر ہیں لیکن دفاعی تبادلوں کا فقدان ہے، جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار امن کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔ نئی دہلی میں قائم تھنک ٹینک نیشنل میری ٹائم فاؤنڈیش کے ڈائریکٹر اُدے بھاسکر کے مطابق بھارتی دفاعی وفد کا تازہ دورہ علامتی اہمیت کا حامل ہے لیکن باہمی تنازعات کے حل کی جانب اسے کوئی بڑی پیشرفت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ پاکستان اور چین کے درمیان فوجی تعاون چین اور بھارت کے درمیان بد اعتمادی کی وجہ بن رہا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عصمت جبیں