تارکین وطن کی آمد کی حد مقرر نہیں کر سکتے، جرمن وزیر داخلہ
1 اکتوبر 2023یورپی یونین کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی کافی عرصے سے مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کی آمد ایک بڑا داخلی سیاسی موضوع بنی ہوئی ہے۔ ایسے یورپی ممالک میں عوامیت پسند سیاست دان اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی سوچ کے حامل حلقے اپنے معاشروں میں بڑی تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے خلاف ہیں۔
باویریا کے وزیر اعلیٰ کا مطالبہ
اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے جنوبی جرمن صوبے باویریا کے قدامت پسند جماعت کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ مارکوس زوئڈر نے ابھی حال ہی میں مطالبہ کیا تھا کہ جرمنی میں مہاجرین اور پناہ کے متلاشی تارکین وطن کی آمد کی سالانہ بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ تعداد کی ایک حد مقرر کی جانا چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی تھی کہ یہ سالانہ تعداد دو لاکھ ہو سکتی ہے۔
مارکوس زوئڈر نے زور دیتے ہوئے کہا تھا، ''وفاقی چانسلر اولاف شولس کو ملک میں تارکین وطن کی آمد کو اپنی حکومت کی اولین ترجیح بنانا چاہیے۔چانسلر شولس کئی ہفتوں سے اس بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لیکن اب انہیں اپنی قائدانہ ذمے داریوں کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بالآخر کچھ کرنا ہی ہو گا۔ اس میں یہ پہلو بھی شامل ہے کہ وہ اپنی مخلوط حکومت میں شامل ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کو بھی اس بات کا قائل کریں کہ تارکین وطن کی زیادہ سے زیادہ آمد کی بھی ایک حد مقرر کی جانا چاہیے۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ کا انکار
وزیر اعلیٰ زوئڈر کے مطالبات کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ فیزر نے جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''ہم جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ تعداد کی کوئی سالانہ حد مقرر نہیں کر سکتے کیونکہ دیگر ممالک کی طرح جرمنی پر بھی یورپی یونین کے قوانین اور بین الاقوامی ضابطوں کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘
قدامت پسند سیاست دان زوئڈر کے بیانات کے برعکس وفاقی جرمن وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہا، ''تارکین وطن کی آمد ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا حقیقی معنوں میں مددگار ثابت ہونے والا کوئی بھی حل صرف ایک یورپی حل ہی ہو سکتا ہے۔‘‘
م م / ع ا (ڈی پی اے)