تاریخ نگران دور کو کیسے یاد رکھے گی؟
26 فروری 2024ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سینئر کالم نگار سلمان عابد نے بتایا کہ دو ہزار چوبیس کے انتخابات کے لیے قائم کئے جانے والے نگران سیٹ اپ کو ملکی تاریخ کی بدترین نگران حکومتوں کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان کے مطابق یہ نگران حکومتیں اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ہائبرڈ نظام کی طرح کام کرتے ہوئے مکمل طور پر ایک سیاسی جماعت کا راستہ روکنے کے لیے برسر پیکار رہیں۔''
بھارت نے پاکستان کو دریائے راوی کا پانی بند کر دیا
اسمبلی میں جاگیر داروں کی اکثریت: کیا یہ پالیسی کا حصہ ہے؟
ان نگران حکومتوں کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت، خاص مقصد کے ساتھ، ایک خاص ٹاسک دے کر لایا گیا تھا اور ان کا کام ہی یہی تھا کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف اور دیگر مخصوص جماعتوں کا راستہ روکنا ہے۔ یہ نگران حکومتیں اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن کے کھیل کا حصہ بن کر سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ دے سکیں اور نہ ہی منصفانہ اور شفاف الیکشن کروانے میں کوئی موثرکردار ادا کر سکیں۔ یہ نگران سیٹ اپ الیکشن کے التوا کے لیے تاخیری حربے استعمال کرتا رہا اور پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کے لیے اس کا جھکاؤ واضح طور پر چند مخصوص سیاسی جماعتوں کی طرف رہا۔ اس کی انتظامیہ سے لیے گئے آر اوز نے جو کمال دکھائے وہ بھی اب ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہیں گے‘‘۔
سلمان عابد سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں آج کل انتخابات کی شفافیت پر جتنے سوالات اٹھ رہے ہیں ان کا جتنا ذمہ دار الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے اتنی ہی ذمہ دار یہ نگران حکومتیں بھی ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کا نگران سیٹ اپ اگر چاہتا تو وہ ملک میں شفاف الیکشن کے لیے سازگار ماحول مہیا کرنے، پری پول دھاندلی کو روکنے اور لیول پلینگ فیلڈ یقینی بنانے میں اپنا موثر کردار ادا کر سکتا تھا لیکن الیکشن سے پہلے تک ایک خاص جماعت کے لوگوں کو گرفتار کرنے، انہیں دھمکانے، ان پر مقدمے بنوانے ، ان کے کاغذات نامزدگی چھیننے اور ان کو انتخابی مہم نہ چلانے دینے کے لیے سرکاری مشینری استعمال ہوتی رہی۔'' کبھی پی ٹی آئی کی انٹرنیٹ سرگرمی کے موقعے پر سروس بند کی جاتی رہی اور کبھی الیکشن کے دن موبائل سروس میں خلل ڈالا جاتا رہا۔‘‘
پاکستان کے ایک سینئر صحافی خالد فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نگران سیٹ اپ کے دوران بہت سے اچھے کام بھی ہوئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے نگران دور کی اقتصادی پالیسیوں کی تعریف کی ہے۔ ''معیشت کو پٹڑی پر لانے کے لیے اصلاحات، نجکاری اور ٹیکسیشن کے ضمن میں جو بولڈ اقدامات نگران حکومتوں نے کئے وہ کبھی بھی منتخب جمہوری حکومتیں نہیں کر سکتی تھیں۔ اس کا کریڈٹ اصل میںنگران حکومت کو نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیٹھی ہوئی مقتدرہ کو جاتا ہے جو یہ سب کچھ کروا رہی تھی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا،'' اس بار کی نگران حکومتیں ماضی کی نگران حکومتوں سے بہت مختلف تھیں۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ نگران حکومتوں نے اپنے آپ کو صرف انتخابات کروانے تک محدود نہیں رکھا بلکہ کئی اہم ملکی فیصلے کیے۔ ادھر پنجاب میں نگران حکومت نے جس تیزی کے ساتھ ڈیویلپمنٹ پراجیکٹس مکمل کروائے صحت اور تعلیم کی سہولیات کو بہتر بنایا اور امن و امان کے مسئلے پر توجہ دی وہ حیران کن ہے اور اس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ ترقی کے لیے کسی بھاری بھرکم کابینہ کا ہونا ضروری نہیں اور اسمبلی کے بغیر بھی بہتر کام کیے جا سکتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں خالد فاروقی کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ سیاسی میدان میں نگرانوں کے انسانی حقوق کے منافی اقدامات کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ایک معروف صحافی حبیب اکرم نے بتایا کہ انوارالحق کاکڑ کے دور میں بننے والی نگران حکومت کو دستور کا مذاق اڑانے والی حکومت کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس دور میں عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود قانون کے مطابق انتخابات معینہ مدت کے دوران نہیں کروائے گئے۔ ''اس نگران دور کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دور کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا۔ اس دور میں پولیس کے ادارے کو سیاسی مخالفین پر مظالم کے لیے جس طرح استعمال کیا گیا اس کی مثال اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ اس دور میںخواتین بھی پولیس کی زیادتیوں سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ حکومت ایک خاص سیاسی جماعت کو کرش کرنے، اسے توڑنے، اس کے رہنماؤں کی سیاسی وابستگیاں تبدیل کروانے اور ڈیکٹیشن نہ ماننے والوں کےکاروبار کو تباہ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔‘‘
منور نامی لاہور کے ایک نوجوان نے بتایا کہ نگران حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی اس نے آئی ایم ایف کے مطالبات کے بارے میں تو سوچا لیکن غریب کا کوئی خیال نہیں کیا۔
سلمان عابد نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بھی ، بھارت اور کئی دوسرے ملکوں کی طرح الیکشن منتخب جمہوری حکومتوں کے ذریعے ہی کرانے کے بارے میں سوچے کیونکہ پاکستان میں نگران حکومتوں کے ذریعے انتخابات کروانے کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ نگران حکومتوں کو کون لاتا ہے اور کون چلاتا ہے۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔