تاریخی فلم اسٹوڈیو ’بمبئی ٹاکیز‘ اب ایک کھنڈر ہے
11 مئی 2011اب سے کوئی دو برس بعد بھارت میں پہلی فیچر فلم کی تیاری کے تاریخی واقعے کو ایک سو برس ہو جائیں گے۔ اِس فلم کی تیاری سے ایک ایسی شاندار فلمی صنعت کی بنیاد پڑی تھی، جس کی تیار کردہ فلمیں آج کل پوری دُنیا میں دیکھی جاتی ہیں اور جس کا سالانہ کاروباری حجم 1.8 ارب ڈالر بنتا ہے۔
قدیم ہندو داستانوں کے ایک بادشاہ کے بارے میں ’راجہ ہریش چندر‘ نامی خاموش فلم سن 1913ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اِس فلم کی تیاری کے بارے میں حال ہی میں بننے والی ایک فلم ’ہریش چندراچی فیکٹری‘ کو سن 2010ء میں بھارت کی جانب سے سرکاری طور پر بہترین غیر ملکی فلم کے آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ممبئی سے اپنے ایک جائزے میں ’بمبئی ٹاکیز‘ کے قریب مقیم اسماعیل محمد غوری کے حوالے سے لکھا ہے کہ کسی دور میں اِس فلم اسٹوڈیو کا شمار بالی وُڈ کے عظیم ترین اسٹوڈیوز میں ہوتا تھا۔
79 سالہ غوری نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ ’بمبئی ٹاکیز‘ کے شاندار دور کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں بڑی بڑی کاریں پارک ہوتی تھیں۔ یہاں آم کے پیڑ تھے، جہاں بچپن میں وہ اور اُس کے دوست کھیلا کرتے تھے۔ اُس نے بتایا کہ کیسے ایک مقامی ریستوراں میں اُس وقت کے مشہور فلمی ستاروں کو دیکھ کر وہ اور اُس کے ساتھی حیران اور مرعوب ہو جایا کرتے تھے۔
ممبئی کے شمالی مضافاتی علاقے ملاد میں اپنے گھر کے سامنے ’بمبئی ٹاکیز‘ کے کھنڈرات اور ملبے کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غوری نے بتایا: ’’اب مَیں اِس مقام کو دیکھتا ہوں تو ایسے لگتا ہے، جیسے اُن دنوں کا کبھی وجود ہی نہ رہا ہو۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ اب خاک ہو چکا ہے۔ میرے انتقال کے بعد اِس علاقے میں کوئی بھی نہیں ہو گا، جسے وہ سنہرا دور یاد ہو۔‘‘
حال ہی میں جریدے ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے باتیں کرتے ہوئے ممتاز فلمساز اور ہدایتکار مہیش بھٹ نے بھی فلم کی تاریخ سے جڑی پرانی چیزوں کی جانب سے غفلت برتنے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جو پرانی چیزیں مزید دولت پیدا نہیں کرتیں، ہم اُنہیں بیکار اور کاٹھ کباڑ سمجھ کر ایک طرف پھینک دیتے ہیں۔‘‘
’بمبئی ٹاکیز‘ سن 1934ء میں قائم کیا گیا۔ اِس کے عروج کے دور میں یہاں پانچ ہزار کے قریب افراد ملازمت کرتے تھے اور یہ ایشیا کا سب سے بڑا فلم اسٹوڈیو کہلاتا تھا۔ لتا منگیشکر اور کشور کمار جیسے پلے بیک گلوکاروں کا یہاں روز آنا جانا رہتا تھا۔
پھر صرف بیس برس بعد یعنی 1954ء ہی میں یہ اسٹوڈیو بند بھی ہو چکا تھا۔ آج کل یہاں 1949ء میں بننے والی فلم ’محل‘ کے ایک سیٹ کی چند ایک باقیات کے سوا کچھ بھی ایسا نہیں ہے، جس سے پتہ چل سکے کہ یہاں کبھی کوئی فلم اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسر اعوان