ترقی پذیر اسلامی ممالک کا تجارتی رابطے بڑھانے کا عزم
9 جولائی 2010نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں ہوئے ڈی ایٹ کے اجلاس میں نائیجیریا، ملائیشیا، مصر، ترکی، ایران، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اگلے دو سال کے لئے تنظیم کی سربراہی نائیجیریا کے صدر گڈ لک جوناتھن کے سپرد کی گئی ہے، جو مسیحی ہیں۔
نائیجیرین صدر نے اپنے خطاب میں رکن ممالک پر واضح کیا کہ باہمی تجارت میں فروغ ہی اقتصادی ترقی کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ جوناتھن گڈلک نے کہا کہ وہ اپنی سربراہی میں اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ رکن ممالک کا نجی شعبہ اقتصادی ترقی کی باگ ڈور سنبھالے اور حکومت معاون اور نگران کا کردار ادا کرے۔
اس ضمن میں انہوں نے توانائی، فضائی سفر کی سہولتوں اور اقتصادی ڈھانچے کو فروغ دینے کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔
ترقی پذیر آٹھ مسلم ممالک کی اس تنظیم کے صدر نے مشترکہ سرمایہ کاری فنڈ کے قیام کی تجویز کو خوش آئند قرار دیا۔ یہ تجویز ایران کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ جوناتھن کا خیال ہے کہ اس سے رکن ممالک کے مابین باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے حجم اور قدر میں اضافہ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمگیریت کے چیلنجز سے متعلق انہوں نے کہا:’’میں چاہوں گا کہ رکن ممالک قابل تجدید توانائیوں کے شعبے میں تحقیق میں آپس میں زیادہ تعاون کریں۔‘‘
اس سے قبل تنظیم کے سابق سربراہ اور ملائیشیا کے وزیر اعظم تان سری محی الدین یاسین نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ ڈی ایٹ کلی طور پر ایک اسلامی گروپ ہے۔ ان کے بقول اس گروپ کے قیام کا مقصد دنیا پر واضح کرنا تھا کہ اسلامی ممالک باہمی اقتصادی تعاون بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
محی الدین یاسین نے نائیجیریا کو تنظیم کی سربراہی کے امور میں تعاون کا یقین دلاتے ہوئے سمٹ میں نجی شعبے کی عدم شمولیت پر افسوس ظاہر کیا۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ تنظیم اب تک اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
ڈی ایٹ کے رکن ممالک اپنے یہاں موجود قدرتی وسائل سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے ہیں۔ ایران اور نائیجیریا کے پاس تیل کے وسیع ذخائر ہیں تاہم ان دونوں ممالک کی اقتصادی حالت بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ایران اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے پابندیوں کی زد میں ہے جبکہ نائیجیریا میں ریفائنریز کی خستہ حالی اور بدعنوانی اقتصادی بہتری کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اسی طرح پاکستان بھی جوہری طاقت ہونے کے باوجود توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے۔
ڈی ایٹ کے رکن ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا تخمینہ 68 ارب ڈالر ہے، جو کہ عالمی تجارت کا تین فیصد بنتا ہے۔ اجلاس کے آخر میں جاری کئے گئے ’’ 2010 ابوجا ڈیکلریشن‘‘ میں عالمگیریت کے عمل میں زیادہ مؤثر انداز سے شریک ہونے کے لئے باہمی تجارتی رابطوں میں تعاون بڑھانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امجد علی