1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن حکومت کا مخالفین کے خلاف سخت تر کریک ڈاؤن

12 جنوری 2023

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ صدر رجب طیب ایردوآن کی صدارت میں موجودہ حکومت رواں برس کے مجوزہ انتخابات سے پہلے اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے عدالتوں اور قوانین کا استعمال کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4M3zB
Türkei | Anhänger des Istanbuler Bürgermeisters Ekrem Imamoglu versammeln sich bei einem Protest in Istanbul
تصویر: Khalil Hamra/AP/picture alliance

یاد رہے کہ ترکی میں رواں برس جون کے وسط تک صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے لیکن ترک صدر ایردوآن کہہ رہے ہیں کہ مجوزہ انتخابات وسط جون سے پہلے بھی منعقد ہو سکتے ہیں۔ ترکی کے آئندہ الیکشن سے پہلے کروائے گئے ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق رجب طیب ایردوآن کی کی 'اسلام پیسند‘ جماعت AK کو 20 سال اقتدار میں رہنے کے بعد اس بار شکست کا سامنا ہو سکتا ہے۔

انسانی حقوق کے نگراں ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حکام آن لائن سنسرشپ اور ڈس انفارمیشن قوانین کو بروئے کار لاتے ہوئے آزاد میڈیا، اپوزیشن اور اختلاف رائے رکھنے  والوں کو بُری طرح دبا رہی ہے۔

حکومتی دباؤ کا شکار کون کون؟

ہیومن رائٹس واچ کے یورپ اور وسطی ایشیا چیپٹر کے ڈائریکٹر ہیو ویلیمسن نے ایک بیان میں کہا، ''ترک حکومت سیاسی مخالفین کے خلاف انتہائی آبرو ریز حربے استعمال کر رہی۔ ایردوآن عوامی احتجاج پر مکمل پابندی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عناصر اور ممکنہ حکومت ناقدین کو باقاعدہ عدالتی احکامات کے تحت سزائیں دلانے اور جیلوں میں بند کرانے جیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘  

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترک ڈائریکٹوریٹ آف کمیونیکیشن نے تاہم ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

Türkei Istanbul Bürgermeister Ekrem Imamoglu
استنبول کے میئر کے حامی سڑکوں پر حکومت مخالف احتجاج کرتے ہوئےتصویر: YASIN AKGUL/AFP

گزشتہ ماہ عدالت نے استنبول کے میئر اکرم امام اُولو کو سزا سنائی تھی۔ اکرام امام اُولو اپوزیشن  جماعت ریپبلکنز پارٹی  (CHP) کے سربراہ ہیں اور آئندہ صدارتی الیکشن میں رجب طیب ایردوآن کے خلاف مقابلے کے میدان میں اترنے والے ایک ممکنہ اہم امیدوار کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایردوآن کے لیے بڑا چیلنج ہو سکتے ہیں۔ اکرم امام اُولو کو 2019 ء میں سرکاری اہلکاروں کی تضحیک کرنے کے الزام کے تحت دو سال اور سات ماہ کی جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف استنبول میں بڑے مظاہرے کیے گئے تھے جس کے جواب میں ایردوآن نے کہا تھا کہ ''ترکوں کو قانونی فیصلوں کو نظر انداز کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اور اپیل کے عمل کے دروان کسی غلطی کو عدالتیں درست کریں گی۔‘‘

رواں ماہ سپریم کورٹ نے کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے، جو پارلیمنٹ کی تیسری سب سے بڑی پارٹی ہے، بینک اکاؤنٹس کو منجمد کر دیا اور اس جماعت کے مبینہ طور پر عسکریت پسندوں سے تعلقات کے سلسلے کے ایک کیس کی سماعت ہو رہی ہے جبکہ یہ پارٹی ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔

سعودی عرب ترک بینک میں پانچ ارب ڈالر کیوں جمع کروا رہا ہے؟

Türkei Istanbul Protest gegen Prozess von Bürgermeister Ekrem Imamoglu
عدالت نے استنبول کے میئر اکرم امام اُولو کو سزا سنائیتصویر: Safak Hacaloglu/Depo/IMAGO

 ایک انوکھا قانون

 گزشتہ برس اکتوبر میں ترکی میں حکمران جماعت AK  پارٹی کی طرف سے تجویز کردہ ایک ایسا قانون منظور کر لیا گیا جس کے تحت صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کو ''غلط معلومات‘‘ پھیلانے پر تین سال کے لیے جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ اس اقدام سے ترکی میں آزادی اظہار پر لگنے والی قد غن کے حوالے سے گہری تشویش پھیل گئی۔

ناقدین نے کہا ہے کہ ''غلط یا گمراہ کرنے والی معلومات ‘‘ کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں اس لیے اس قانون کے عدالتوں کی طرف سے غلط استعمال کے وسیع امکانات ہیں کیونکہ ترکی میں عدالتیں خود مختار نہیں ہیں۔ حکومت ان دعووں کی تردید کرتی ہے کہ عدالتیں حکومت مخالفین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کرتے ہوئے حالیہ سالوں کے دوران انہیں خاموش کراتی رہی ہیں۔

انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ  نئے قانون کا مقصد آن لائن کو ریگولیٹ کرنا، ملک کی حفاظت کرنا اور غلط معلومات پھیلانے کی مہم کا مقابلہ کرنا ہے۔

ک م/اب ا(روئٹرز)