ترکی میں کرنسی کا بحران: بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ مزید کم
18 اگست 2018دنیا کی سب سے بڑی مالیاتی منڈیوں میں شمار ہونے والے شہروں، امریکا میں نیو یارک اور برطانیہ میں لندن سے ہفتہ اٹھارہ اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پہلے سے انتہائی حد تک اقتصادی مشکلات کے شکار ملک ترکی کو آئندہ دنوں میں مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور انقرہ پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں مالیاتی استحکام اور اس کے اپنے ذمے مالی ادائیگیوں کے قابل ہونے سے متعلق درجہ بندی کرنے والی متعدد کریڈٹ ایجنسیوں نے ترکی کی ریٹنگ مزید کم کر دی ہے۔ ان میں سے دو اہم ترین ایجنسیان مُوڈیز اور ایس اینڈ پی ہیں۔
ایس اینڈ پی نے جمعہ سترہ اگست کو ترکی کی ریٹنگ BB- سے کم کر کے دوبارہ B+ کر دی جبکہ مُوڈیز نے بھی اپنی ترکی سے متعلق ریٹنگ میں ایک درجے کی کمی کر دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترکی میں مالیاتی استحکام کی صورت حال بہت بے یقینی کا شکار ہے اور یہ بات عالمی سطح پر قرض دہندگان اور سرمایہ کار اداروں کے لیے تشویش کا سبب بنتی ہے۔
ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے مطابق ترکی کو اس وقت ’’مسلسل اقتصادی بحران‘‘ کا خطرہ درپیش ہے، جس کی ایک بڑی وجہ ترک کرنسی لیرا کی قدر میں گزشتہ دنوں میں نظر آنے والی وہ بڑی گراوٹ بنی، جس کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر ریکارڈ حد تک کم ہو گئی تھی۔
ڈی پی اے کے مطابق یہ ریٹنگ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ ان حقائق کی وضاحت کرتی ہے کہ کوئی ریاست کس طرح کے حالات میں اپنے لیے مالی وسائل کے حصول کو یقینی بنا سکتی ہے اور اس کے جاری کردہ مالیاتی بانڈز میں سرمایہ کاری کتنی محفوظ ہو گی۔
انٹرنیشنل کریڈٹ ایجنسی ایس اینڈ پی نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ترکی کو اگلے برس اقتصادی کساد بازاری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور معاشی ترقی کے بجائے ممکن ہے کہ ترک معیشت کی مجموعی کارکردگی میں قریب 0.5 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئے۔
مُوڈیز اور ایس اینڈ پی نے اپنے ان فیصلوں کی وجہ یہ بھی بتائی ہے کہ ترکی میں ملکی مرکزی بینک کی آزادی اور خود مختاری کی صورت حال تشویش کا سبب ہے اور صدر رجب طیب ایردوآن نے اب تک قومی معیشت کو درپیش صورت حال کے تدارک کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ بہت نیم دلانہ ہیں اور ان کے واضح مثبت نتائج بھی غیر یقینی ہیں۔
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں اس سال کے آغاز سے اب تک مجموعی طور پر قریب 40 فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ بحرانی حالات کی ایک وجہ امریکا میں صدر ٹرمپ کے طرف سے ترکی کے خلاف کیے جانے والے اقتصادی اقدامات بھی ہیں، جن کے باعث حال ہی میں صرف ایک دن میں ترک لیرا کی قدرمیں 20 فیصد تک کی کمی دیکھی گئی تھی۔
ترکی اور امریکا کے مابین موجودہ شدید کشیدگی کی وجہ ترکی میں ایک امریکی پادری کی گرفتاری بھی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس امریکی شہری کی رہائی کے مطالبے کر رہی ہے جب کہ انقرہ حکومت اس بارے میں اپنے ہاں عدالتی نظام میں کوئی بھی مداخلت کرنے سے انکاری ہے کیونکہ اینڈریو برنسن نامی اس پادری کو ترکی میں اپنے خلاف دہشت گردی سے متعلقہ الزامات کا سامنا ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق ترک معیشت کو سال رواں کے لیے مجموعی طور پر قریب 229 ارب ڈالر کے غیر ملکی سرمائے کی ضرورت ہے اور زر مبادلہ کا یہ حجم ترکی کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر کی کل مالیت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
م م / ع ا / ڈی پی اے