ترکی نے پاکستانیوں سمیت 310 مہاجرین یونان جانے سے روک دیے
5 نومبر 2017یورپی یونین اور ترکی کے مابین گزشتہ برس طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد انتہائی کم ہو گئی تھی۔ تاہم حالیہ مہینوں کے دوران ایک مرتبہ پھر اس رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اٹلی: پناہ کے قوانین میں تبدیلی کا مجوزہ قانون
جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا، یونان
ترک ساحلی محافظوں کے مطابق جمعے کی شب ایسی ہی کوشش کرنے والے سینکڑوں مہاجرین اور تارکین وطن کو روک دیا گیا۔ کوسٹ گارڈز کے مطابق تین سو سے زائد تارکین وطن ملک کے مغربی ساحلوں سے بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستے عبور کر کے یونان جانا چاہتے تھے۔
یہ مہاجرین ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی ایک کشتی میں سوار ہو کر بحیرہ ایجیئن میں روانہ تھے تاہم ترک کوسٹ گارڈز نے نشاندہی کے بعد اس کشتی کو ملکی سمندری حدود ہی میں روک کر تارکین وطن کو واپس ترک ساحل آنے پر مجبور کر دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یونان کی جانب روانہ اس کشتی میں 110 شامی مہاجرین کے علاوہ پاکستان، افغانستان، بھارت اور ایران سے تعلق رکھنے والے 179 تارکین وطن بھی سوار تھے۔
علاوہ ازیں ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی پر سات ترک اور بیلاروس کے دو شہری بھی سوار تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ افراد مبینہ طور پر انسانوں کے اسمگلر ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق سن 2015 کے دوران ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افراد بحیرہ ایجیئن کے انہی سمندری راستوں کے ذریعے ترکی سے یونان پہچنے تھے۔ تاہم مارچ سن 2016 میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد ان راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد ڈرامائی طور پر کم ہو گئی تھی۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ یونان سے بلقان کی ریاستوں کے زمینی راستوں کے ذریعے مغربی یورپ پہنچنے کے راستے بھی بند ہیں اور اسی وجہ سے گزشتہ برس سے ہزاروں مہاجرین اور تارکین وطن یونان میں پھنسے ہوئے ہیں۔