ترکی کے ساحل پر نایاب کچھووں کی افزائش میں اضافہ
10 اگست 2024نایاب لاگرہیڈ کے بچے اپنے انڈوں کے خول سے نکل کر جب بحیرہ روم کے ترک ساحل کے چمکتے پانیوں میں اترتے ہیں تو ان کا سفر مزید پُرخطر اور غیر یقینی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہزار میں سے صرف ایک کچھوا ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتا ہے۔ تقریباً پچیس سال بعد، مادائیں انڈے دینے کے لیے اُسی ساحل پر واپس آتی ہیں، جہاں وہ پیدا ہوئی تھیں۔
انسانوں اور دیگر جاندار جیسے پرندوں، کیکڑوں اور چیونٹیوں کی طرف سے شدید خطرات کے باوجود، ترکی کے جنوبی ساحل پر کیے جانے والے حفاظتی اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کچھووں کی افزائش کے لیے بڑا خطرہ
رضاکاروں کا ایک گروپ 10 کلومیٹر (چھ میل) مقامی سیاحت کے مرکز انطالیہ کے مشرق میں واقع طویل ساحل کی دن رات نگرانی کرتا ہے۔
یہ کاریٹا کاریٹا کہلائے جانے والے نایاب کچھووں کی افزائش کا ایک اہم مقام ہے جو کہ بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی حیاتیاتی تنوع کو لاحق خطرات کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) میں شامل ہیں۔
ڈیکا فومیک مرین کنزرویشن سینٹر کی بانی صدر سحر اکیول نے اے ایف پی کو بتایا، 'اس سال ہمارا اوسط تخمینہ ساٹھ ہزار انڈوں کے لگ بھگ ہے جس میں سے تیس ہزار بچے بنیں گے اور ان میں صرف تیس کچھوے سالوں بعد ساحل پر واپس آئیں گے۔‘
ترکی کے جنوبی ساحل پر افزائش نسل کے 21 مقامات ہیں جن میں سے آٹھ صرف انطالیہ میں واقع ہیں۔ ان علاقوں میں روشنی کے استعمال اور سمندری جہازوں کی رفتار کو محدود کرنے جیسے حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ بہت سے ساحلوں پر رات آٹھ بجے سے لے کر صبح آٹھ بجے تک کسی کا بھی داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں، جانداروں کی کئی نایاب اقسام کو بھی خطرہ
مناوگت میں ان مقامات کی حفاظت کا ذمہ رضاکاروں نے سنبھال لیا ہے۔ یہ رضاکار ان مقامات پر نشان لگا کر اور ان کے ارد گرد لکڑیوں سے ایک حد بنا کر انڈوں کو ساحل پر آنے والوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ وہ رات کو کچھووں کو ان کے خول سے نکال کر انہیں سمندر کی طرف رینگنے میں مدد کرتے ہیں۔ مقامی حکام بھی رضاکاروں کے ان اقدامات میں مدد اور وسائل فراہم کرتے ہیں۔
مناوگت کے میئر نیازی نیفی کارا نے لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ساحل کے کنارے سڑکوں پر لال روشنیاں اور انتباہی بورڈ لگوا دیئے ہیں۔ ماحولیاتی قانون کے تحت سمندری کچھووں اور ان کے گھونسلوں کو نقصان پہنچانے والوں پر 387141 لیرا کا جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
کارا کا کہنا ہے کہ ہمیں فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ڈیکافومیک کی بانی صدر کہتی ہیں کہ انسان اور کاریٹا کاریٹا ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔
پاکستانی ساحلوں میں سبز کچھوؤں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ
ساحل سمندر پر اپنے خاندان کے ساتھ آنے والی 33 سالہ سونگول سرٹ کا کہنا تھا کہ ہم اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کچھووں کے رہنے کی جگہ پر قبضہ نہ کریں۔ ایک اور مقامی حسین گولیج نے بتایا کہ اس سے پہلے انتباہی نشانات کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا ان کے گھونسلوں کو کچل دینے کا خطرہ رہتا تھا۔
تاہم اے ایف پی کی ایک ٹیم نے ساحل سمندر کے ساتھ واقع کچھ ہوٹلوں کو اب بھی تیز سفید روشنیوں کا استعمال کرتے دیکھا۔ جس پر ماحولیاتی ماہرین میں غصہ پایا جاتا ہے۔
لاگر ہیڈز نامی ان نایاب کچھووں کی مجموعی تعداد کا اندازہ تو نہیں لگایا جاسکا ہے لیکن یہ 80 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ ان کا وزن 90 سے 180 کلوگرام (200 سے 400 پاؤنڈ) تک ہوتا ہے اور ان کی لمبائی ایک اعشاریہ دو میٹر یعنی چار فٹ تک پہنچ سکتی ہے۔
’سندر بن کے ساحل سمندری کچھوؤں کےلیے محفوظ نہیں رہے‘
اکدینیز یونیورسٹی کی فشریز فیکلٹی سے وابستہ پروفیسر محمت چنگیز دیوال نے کہا کہ ان کچھووں میں سے بہت کم افزائش کے لیے واپس آتے ہیں اس لیے ان کی حفاظت ضروری ہے۔
یہ سمندری کچھوے بنیادی طور پر بحراوقیانوس، بحرالکاہل اور بحر ہند کے گرم مرطوب اور معتدل درجہ حرارت والے حصوں اور بحیرہ روم میں پائے جاتے ہیں۔
آئی یو سی این کے مطابق بحیرہ روم کے لاگر ہیڈز کو فوری خطرہ درپیش نہیں ہے لیکن عالمی سطح پر یہ نسل خطرے کا شکار مانی جاتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی بھی اس نسل کو درپیش خطرے کی ایک وجہ ہے۔
ان کچھووں کی جنس انڈوں کے مقام کی ریت کے درجہ حرارت سے متاثر ہوتی ہے۔ ٹھنڈا درجہ حرارت نر کچھووں کی نشوونما کا باعث بنتا ہے، جبکہ گرم درجہ حرارت کے نتیجے میں مادہ کچھوے پھلتے پھولتے ہیں۔
دیوال کے مطابق جولائی سے پیدا ہونے والے زیادہ تر کچھوے مادہ ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو اگلے تیس سے چالیس سالوں میں زیادہ تر کچھوے مادہ ہوں گے جبکہ افزائش نسل کے لیے کوئی نر کچھوا نہیں ہوگا۔
اکیول زخمی کچھووں کے علاج کے لیے ایک بحالی مرکز بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ہر بار ان کچھووں کو پانی میں بھیجتے وقت خوش اور پر جوش دکھائی دیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں ان کچھووں کی آنکھوں میں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنی شکر گزاری کا اظہار کرنا چاہتے ہوں۔
ح ف / ع ت (اے ایف پی)