1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین قرآن کا الزام، مشتعل ہجوم نے مقامی سیاح کو ہلاک کر دیا

21 جون 2024

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات میں قرآن کی توہین کے الزام میں مشتعل ہجوم نے ایک شخص کو تھانے سے باہر نکال کر تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ ریاستی وزیر اعلیٰ نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4hLJB
سیالکوٹ میں دسمبر 2021 میں اہانت اسلام کے الزام میں سری لنکا کے ایک شہری کو ہلاک کردیا گیا تھا
سیالکوٹ میں دسمبر 2021 میں اہانت اسلام کے الزام میں سری لنکا کے ایک شہری کو ہلاک کردیا گیا تھاتصویر: Shahid Akram/AP/picture alliance

 

پاکستان میں توہین اسلام اور اہانت قرآن کے نام پر پرتشدد واقعات کے سلسلے کی یہ تازہ کڑی ہے۔ یہ واقعہ سوات میں پیش آیا۔ سوات پولیس نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے اہانت قرآن کے الزام میں پولیس کی حفاظتی تحویل میں موجود ایک شخص کو تھانے سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کر دیا ۔

ہم اس بارے میں کیا جانتے ہیں؟

سوات کے ضلعی پولیس افسر ڈاکٹر زاہد اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ سیاحتی مقام مدین میں سیالکوٹ سے آئے ہوئے ایک سیاح پر کچھ مقامی افراد نے قرآن کے اوراق کی بے حرمتی کا الزام لگایا اوران کو ہوٹل کے باہر بازار میں گھیرلیا تھا اورپولیس کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو وہاں جا کر مبینہ ملزم کو حفاظتی تحویل میں لے لیا۔

سرگودھا میں مسیحیوں پر حملہ، مزید گرفتاریاں اور مقدمات

توہين مذہب کے الزام پر چينی شہری گرفتار

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے مقامی سیاح کو وین میں بٹھا لیا اور تھانے لے جانے لگی لیکن اس دوران تقریباً پانچ سو افراد پر مشتعل ہجوم مبینہ ملزم کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا رہا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مشتعل افراد نے پولیس موبائل وین کو بھی آگے پیچھے سے روک رکھا تھا۔

ڈاکٹر زاہداللہ کے مطابق پولیس وین نے راستے میں ایک مقامی رکن صوبائی اسمبلی کے گھر میں جانے کی بھی کوشش کی تاکہ ان کی مدد سے لوگوں کو سنبھالا جا سکے لیکن گھر کا دروازہ بند تھا تو موبائل وین تھانے چلی گئی۔

انہوں نے بتایا، ’’موبائل وین کے ساتھ چلتے چلتے مشتعل افراد 500 سے ہزاروں تک پہنچ گئے تھے۔ موبائل وین تھانے کے اندر لے جا کراس سیاح  کو ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ لیکن ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ وہ پولیس اسٹیشن کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گیا اور شدید پتھراؤ کرتے ہوئے تھانے سے مبینہ ملزم کو نکال کر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مار ڈالا۔‘‘

وزیر اعلی کا بیان

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی پولیس سربراہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

توہین مذہب کا قانون پاکستانی ’اقلیتوں کے سر پر لٹکتی تلوار‘

مذہب کا سیاسی استعمال: کئی حلقوں کو تشویش

وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان میں علی امین گنڈا پورنے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے اور پولیس کو صورت حال پر قابو پانے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی ہدایت کی ہے۔

پولیس کے مطابق قتل کیے جانے والے شخص کا نام سلیمان ہے اور وہ 18 جون سے مدین میں سیاحت کے لیے موجود تھے۔

ڈاکٹر زاہد اللہ کا کہنا تھا، ’’مدین میں اس وقت بہت سے سیاح موجود ہیں۔ سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے ہماری ٹیم یہاں تعینات ہوتی ہے اور ناکہ بھی لگایا جاتا ہے۔‘‘ مدین سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے جہاں ملک کے مختلف حصوں سے سیاح آتے ہیں۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق مدین میں حالات کشیدہ ہیں۔ عملاً مدین میں مشتعل ہجوم کا کنٹرول ہے اور وہ کسی گاڑی کو بھی آنے جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں تاہم انہوں نے کسی بھی سیاح کو نہیں چھیڑا ہے۔ اس وقت مدین کا بازار مکمل بند ہے جب کہ سڑک پر صرف مظاہرین ہیں۔

توہین اسلام کے نام پر تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے
توہین اسلام کے نام پر تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہےتصویر: Muhammad Javed/AA/picture alliance

توہین اسلام کے نام پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے

خیال رہے کہ پاکستان کے سابق حکمراں صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں توہین اسلام کے لیے سزائے موت کا قانون منظور کیے جانے کے بعد سے ملک میں غیر مسلموں کے خلاف تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹوں کے مطابق سن 1927 سے 1986ء کے درمیان پاکستان میں توہین اسلام کے صرف 14واقعات درج ہوئے تھے۔ لیکن سن 1987 سے 2022ء کے درمیان کم از کم 2120 افراد کے خلاف توہین اسلام کے کیس درج کیے گئے۔

گزشتہ ماہ سرگودھا میں ایک مسیحی کو قرآن کی توہین کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جو زخموں کی تاب نہ لا کر نو دن بعد چل بسی۔ سن 2022 میں خانیوال ضلع کے ایک گاؤں میں قرآن کی توہین کے الزام میں مشتعل ہجوم نے ایک شخص کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔

 ج ا/ ص ز (خبر رساں ادارے)