توہین مذہب کے الزام پر قتل، ہجوم میں شامل 23 افراد گرفتار
24 جون 2024پاکستانی صوبے خیبر پختونخواہ (کے پی) میں پولیس نے توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص کو قتل کرنے والے ہجوم میں مبینہ طور شامل 23 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان مشتبہ افراد پر کے پی کے ایک سیاحتی مقام مدین میں قتل اور ایک پولیس اسٹیشن جلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ایک مشتعل ہجوم نے جمعرات کے روز ایک سیاح کو مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کرنے کے الزام میں تشدد کر کے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش جلا دی تھی۔
پولیس نے ابتدائی طور پر مقتول کی شناخت محمد اسماعیل کے نام سے کی تھی لیکن پیر کو تفتیش کے بعد بتایا کہ اس کا نام محمد سلمان تھا۔ پولیس کے مطابق مقتول کے اہل خانہ نے ابھی تک اس کی لاش وصول کرنے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔
مقتول کا تعلق صوبہ پنجاب سے بتایا گیا ہے تاہم اس صوبے کی پولیس کی جانب سے بھی ابھی تک کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔ سلمان کی والدہ کا البتہ ایک مختصر ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ ان کا بیٹا نشے کا عادی تھا اور انہیں مارتا تھا اور انہوں نے اس کے پرتشدد رویے کی وجہ سے اسے گھر سے نکال دیا تھا۔
'کسی غلط کام کے ذمہ دار نہیں‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کا خاندان سلمان کے کسی غلط کام کے لیے ذمہ دار نہیں۔ مدین میں پولیس کے علاقائی سربراہ محمد علی گنڈا پور نے پیر کے روز کہا کہ پولیس نے 23 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے اور سلمان کے قتل میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کرنے کی کوششوں کے تحت مزید چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
سلمان مدین کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، جب ایک ہجوم نے ان پر توہین مذہب کا الزام لگایا۔ حکام کا کہنا ہے کہ انہیں جمعرات کو اس کے لیے حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا۔ ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی، جب ایک مشتعل ہجوم مدین پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہو کر ملزم کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگا تاکہ وہ مبینہ طور پر قرآن کے اوراق جلانے کے الزام میں اسے فوری طور پر سزا دے سکیں۔
پولیس اور سرکاری حکام کے مطابق انہوں نے ہجوم کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ اگر سلمان نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا تو اسے مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن مشتعل ہجوم نے یقین دہانی ماننے سے انکار کر دیا اور پولیس اسٹیشن پر حملہ کر دیا، جس سے کچھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ ہجوم نے اس شخص کو پولیس سے چھینے کے بعد اسے سرعام قتل کر کے اس کی لاش جلا دی۔
پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کا عائد کیا جانا عام ہے۔ توہین مذہب کے ملکی قوانین کے تحت، جو بھی شخص اسلام یا اسلامی مذہبی شخصیات کی توہین کا مرتکب پایا جائے اسے موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم حکام کی جانب سے توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت پر عمل درآمد ہنوز نہیں ہوا لیکن یہ الزامات فسادات کا باعث بن سکتے ہیں اور ہجوم کو تشدد پر اکسا سکتے ہیں۔
گزشتہ ماہ بھی صوبہ پنجاب میں ایک ہجوم نے ایک 72 سالہ مسیحی شخص پر قرآنی صفحات کی بے حرمتی کا الزام لگا کر اس پر حملہ کر دیا تھا، بعد ازاں ہسپتال میں اس کی موت ہو گئی۔
ش ر⁄ ک م ( اے پی)