’ثابت ہوا، پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے‘: بھارت
2 مئی 2011آج پیر کو ایک بیان میں بھارتی وزیر داخلہ نے کہا:’’ہم صدر اوباما کے بیان کے اُس حصے کو گہری تشویش کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، جس میں اُنہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے تبادلے کا وہ واقعہ پاکستان کے مرکزی حصے میں واقع شہر ایبٹ آباد میں پیش آیا، جس میں اُسامہ بن لادن مارا گیا۔ یہ بات ہماری اس تشویش کو اور زیادہ درست ثابت کرتی ہے کہ مختلف تنظیموں سے وابستگی رکھنے والے دہشت گردوں کو پاکستان میں پناہ ملتی ہے۔‘‘
اُنہوں نے بھارت کے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ 2008ء میں ممبئی میں دہشت پسندانہ حملے کروانے کے ذمہ دار عناصر بدستور پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ ان حملوں کی ذمہ داری پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں پر عائد کی جاتی ہے اور بھارتی وزیر داخلہ نے ایک بار پھر پاکستان پر اُن مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کے لیے زور دیا، جن کی نشاندہی بھارتی خفیہ اداروں کر چکے ہیں۔
بھارت ایک طویل عرصے سے پاکستان پر الزام عائد کرتا چلا آ رہا ہے کہ وہ بھارتی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے عسکریت پسندوں کو پناہ بھی دیتا ہے اور اُنہیں ضروری ساز و سامان بھی فراہم کرتا ہے۔
2008ء میں ممبئی پر دَس مسلح دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا اور تین روز تک جاری رہنے والی اس کارروائی کے دوران کم از کم 166 افراد مارے گئے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ جامع امن مذاکرات کا عمل معطل کر دیا تھا۔
دریں اثناء یہ امن عمل پھر سے بحال ہو چکا ہے تاہم بھارت پاکستان پر اپنی یہ تنقید بھی جاری رکھے ہوئے ہے کہ پاکستان ان حملوں کے ذمہ دار عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کافی کوششیں نہیں کر رہا۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ اُسامہ بن لادن کی موت ایک ’تاریخی پیش رفت اور کامیابی کا سنگِ میل‘ ہے۔ کرشنا نے واضح طور پر پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جانا چاہیے۔
ایس ایم کرشنا نے کہا:’’گزشتہ برسوں کے دوران ان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ دُنیا کو دہشت گردی کا خاتمہ کرنے اور اُن پناہ گاہوں کو اکھاڑ پھینکنے کے سلسلے میں اپنی مشترکہ کوششیں ترک نہیں کرنی چاہییں، جو ہمارے پڑوس میں دہشت گردوں کو فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ جدوجہد بلا روک ٹوک جاری رہنی چاہیے۔‘‘
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ