جاسوسی کے پروگراموں کا جائزہ ’تکمیل کے قریب‘
14 جنوری 2014وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ صدر باراک اوباما امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کے جاسوسی کے پروگرام کے جائزے کا کام ختم کرنے کے قریب ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ کام ابھی ختم نہیں ہوا لیکن اختتام کو پہنچنے والا ہے۔
امریکا میں ایک بورڈ نے گزشتہ ماہ این ایس اے کا جائزہ لینے کے بعد جاسوسی کے پروگراموں میں تبدیلیوں کے لیے سفارشات پیش کی تھیں جن پر باراک اوباما غور کر رہے ہیں۔ وہ جمعے کو محکمہء انصاف میں خطاب کے دوران اس موضوع پر بات کریں گے۔
واضح رہے کہ گزشہ برس خفیہ معلومات تک رسائی اور ’’سلامتی‘‘ کی غرض سے این ایس اے کے جاسوسی کے پروگرام’’پرزم‘‘ کے لِیک ہو جانے کے بعد جہاں امریکی حکومت کو اندرون ملک سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہاں یورپی ممالک کے عوام بھی امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ اس ضمن میں اپنی حکومتوں کے مبینہ تعاون پر نالاں ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی نے ایسی قانون سازی کی منظوری دی تھی جس کے مکمل ہونے کے بعد ملکی خفیہ اداروں کے الیکٹرانک مانیٹرنگ نظام پر حکومتی کنٹرول سخت ہو جائے گا، تاہم خفیہ نگرانی پروگرام حسب معمول جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اين ايس اے کے سابق کانٹريکٹر ايڈورڈ سنوڈن نے اين ايس اے کی جانب سے ٹيلی فون ڈيٹا جمع کرنے کے بارے ميں انکشافات کيے۔ بعد ازاں انہوں نے امريکا کی قومی سلامتی سے متعلق اس ادارے کی جانب سے ملکی و عالمی سطح پر وسيع پيمانے پر کی جانے والی جاسوسی اور نگرانی کے پروگراموں کا پردہ فاش کيا۔ اسی سبب ان دنوں دنيا بھر ميں ’پرائيوسی‘ يا ذاتی معلومات کے حوالے سے بحث چھڑی ہوئی ہے۔ کئی ملک اين ايس اے کی کارروائيوں سے خوش نہيں ہيں۔
دوسری جانب اين ايس اے کا مؤقف ہے کہ دنيا بھر ميں دہشت گردی کے ممکنہ واقعات کو ناکام بنانے کے ليے اتنے وسيع پيمانے پر جاسوسی لازمی تھی۔ امريکی صدر کی جانب سے این ایس اے کی کارروائیوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ اس تناظر میں کیا جا رہا ہے کہ اس ادارے پر لگنے والے الزامات اور اتحادی ممالک کی ناراضی کا سدباب کیا جا سکے۔
امريکا کو مطلوب ايڈورڈ سنوڈن روس ميں عارضی سياسی پناہ حاصل کرنے کے بعد ان دنوں وہيں مقيم ہيں۔