ججوں کے خلاف شکایت، بحران سنگین ہونے کا خدشہ
10 اپریل 2023پاکستان کے آئینی بحران نے ایک نئی کروٹ لے لی ہے اور قصور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الحسن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک شکایت درج کرائی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کے لیے شیڈول جاری کر دیا
عدلیہ کا فیصلہ، جیت انصاف یا پھر تحریک انصاف کی؟
شکایت میں الزامات
وکیل سردار سلمان احمد ڈوگر کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئی اس شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ مذکورہ بالا ججوں نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کا طرز عمل آئین کی آرٹیکل دوسو نو کے خلاف ہے۔ شکایت میں مزید کہا گیا ہے کہ عمرعطا بندیال پنجاب میں انتخابات کے مقدمے کے حوالے سے عدالتی اور انتظامی مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں جب کہ انہوں نے بحیثیت سربراہ سپریم جوڈیشل کونسل مظاہر نقوی کے خلاف الزامات کی تفتیش کرانے سے بھی انکار کیا۔ شکایت میں دیگر ججوں کے خلاف بھی الزامات لگائے گئے ہیں۔
درخواست میں صدر مملکت سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 209 کی ذیلی شق چھ کے تحت ان ججوں کو ان کے عہدے سے ہٹائیں۔
کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کا بہانہ ہے، جس کے تحت عدالت نے یہ حکم دیا ہے کہانتخابات پنجاب میں 90 دن میں کرائے جائیں جبکہ کچھ ماہرین ان ججوں کے خلاف شکایت کو درست سمجھتے ہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل
واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل پانچ ارکان پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز اور ہائی کورٹس کے دو سینئر ترین ججز ہوتے ہیں۔ اس وقت اس کونسل کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال ہیں۔ قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود سپریم کورٹ سے اس کے رکن ہیں جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی ہائی کورٹس کی طرف سے اس کے اراکین میں شامل ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس شکل میں اٹھارویں ترمیم کے بعد معرض وجود میں آئی اور اس وقت سے لے کر اب تک ک یہ پہلا موقع ہے کہ چار ججوں کے خلاف بیک وقت کوئی شکایات آئی ہیں۔ دوہزار اٹھارہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل نے عہدے سے ہٹادیا تھا۔
فروری دوہزار سترہ میں لاہور ہائی کورٹ کے جج مظہر اقبال سدھو نے سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہونے سے دو دن قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے خلاف کرپشن کا ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیا گیا تھا۔
انتقام کی کوشش
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس شکایت کے بعد نہ صرفحکومت اور عدلیہ میں تناؤ بڑھ جائے گا بلکہ اس سے ملک میں آئینی بحران بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سردار محمد مصروف خان کا کہنا ہے کہ حکومت عدلیہ سے انتقام لینے کی کوشش کر رہی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں آئینی بحران مزید شدید ہوگا اور ایمرجنسی بھی نافذ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کیونکہ عدالت نے الیکشن 90 دن میں کرانے کے لیے فنڈز اور سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت عدالت کا حکم مان نہیں سکتی اس لیے وہ عدالت کے لیے مشکلات کھڑی کر رہی ہے اور ججوں سے انتقام لینے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘
سردار محمد مصروف خان کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی سرگرمی پر بہت سارے سوالات اٹھائے جائیں گے۔ '' اگر چیف جسٹس کے خلاف کوئی ریفرنس دائر ہوا ہے یا کوئی شکایت ہے، تو وہ خود اس شکایت کو نہیں سن سکتے۔ فائز عیسی اس کی صدارت کریں گے، جنہیں حکومت کے قریب سمجھا جاتا ہے جب کہ دوسرے ججز کے بارے میں بھی یہ تاثر ہے کہ ان کی ہمدردیاں حکومت کے ساتھ ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر اس کونسل سے ہونے والا فیصلہ متنازعہ ہو سکتا ہے۔‘‘
شکایت درست ہے
تاہم وکلاء برادری میں سے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے لیے ان ججوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ بلوچستان بار کونسل کے رکن ایڈووکیٹ راہب بلیدی کا کہنا ہے کہ ان ججوں کے خلاف شکایت صرف عام لوگوں کی طرف سے ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان بار کونسل نے بھی جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کیا ہے۔ راہب بلیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سپریم کورٹ نے الیکشن کے حوالے سے جو فیصلہ دیا، وہ متنازعہ ہے۔ پاکستان بار کونسل سمیت ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا تھا لیکن چیف جسٹس نے اس کو نہیں سنا۔‘‘
راہب بلیدی کے مطابق کے اگر ججوں کے خلاف کوئی شکایت ہو، تو یہ شکایت اگر سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائی نہیں جائے گی تو پھر کہاں جمع کرائی جائے گی۔ ''سپریم جوڈیشل کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، جس کا کام اس طرح کی شکایات کو سننا ہے۔ ا س میں انتقام کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ ان ججوں کے کنڈکٹ پر بار کونسلز سمیت بہت سارے لوگوں کو اعتراضات ہیں۔‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ صرف ان چار ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز یا شکایات دائر نہیں کی گئی ہیں بلکہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کے خلاف بھی شکایات موجود ہیں، جو کافی عرصے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں پڑی ہوئی ہیں۔ اگر ان ریفرنسز کو نظر انداز کرکے ان چار ججوں کے خلاف شکایات کو پہلے سنا گیا تو اس پر بھی سوالات اٹھیں گے۔