جرمن اسرائیلی تعلقات: ’ایک مستقل ذمہ داری‘
25 اپریل 2023جرمنی اور اسرائیل کے تعلقات کے بارے میں ایک بنیادی سوچ کے تحت دیا جانے والا بیان تقریباً جرمنی کے ہر سربراہ مملکت و حکومت کی طرف سے سننے کو ملتا رہا ہے۔ ''یہودیوں کے اجتماعی قتل کا تاریخی واقعہ دراصل جرمنی کے اکسانے کے نتیجے میں رونما ہوا۔ اس کی منصوبہ بندی جرمنوں نے کی تھی اور اسے انجام تک بھی جرمنوں نے پہنچایا تھا۔ نتیجتاً ہر جرمن حکومت اسرائیلیریاست کی حفاظت اور یہودیوں کی زندگی کے تحفظ کی مستقل طور پر ذمہ دار ہے۔ ہم ان لاکھوں مقتولین اور متاثرین کے مصائب کو کبھی نہیں بھولیں گے۔‘‘ یہ الفاظ موجودہ جرمن چانسلر اولاف شولس نے دو مارچ 2022 ء کو یروشلم میں یاد واشم نامی ہولوکاسٹ میموریل کے دورے کے موقع پر بطور چانسلر اسرائیل کے اپنے پہلے دورے کے دوران ادا کیے تھے۔
یہ جرمنی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کے بارے میں ایک بنیادی بیان ہے جو یاد واشم کا دورہ کرنے والا ہر جرمن سیاستدان اور لیڈر دیتا آیا ہے۔
جرمنی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات بہت خاص نوعیت کے ہیں۔ انہیں ہمیشہ نازی جرمنوں کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل عام کے واقعے یا ہولوکاسٹ کی روشنی میں ہی دیکھا جاتا رہے گا۔ تاہم اسرائیل اور جرمنی کے مابین مکمل سفارتی تعلقات 1965ء کے بعد سے متاثر کن حد تک قائم ہوئے۔
'جرمنی کے استثنا کےساتھ‘
نئی وجود میں آنے والی اسرائیلی ریاست کے قیام کے ابتدئی سالوں میں ہر اسرائیلی پاسپورٹ پر درج ہوتا تھا، ''یہ پاسپورٹ جرمنی کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک کے لیے ہے۔‘‘ 1993ء سے 1997 ء تک سابق مغربی جرمن ریاست کے دارالحکومت بون میں تعینات اسرائیل کے سفیر ایوی پریمور نے تو ''جرمنی کے استثنا کے ساتھ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی تھی۔ اسرائیل کی ریاست خود کو ''قاتلوں کے ملک‘‘ جرمنی سے واضح طور پر دور رکھنا چاہتی تھی۔
دونوں ممالک کے مابین مفاہمت کا سلسلہ بنیادی طور پر سن 1952 میں ''لکسمبرگ معاہدے‘‘ کے تحت شروع ہوا تھا، جس پر ایک طرف وفاقی جمہوریہ جرمنی نے اور دوسری طرف اسرائیل اور یہودی ' کانفرنس‘ نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے میں جرمنی کی طرف سے معاوضے کی ادائیگیوں اور اثاثوں کی واپسی کے معاملات طے ہوئے تھے۔
پہلے جرمن چانسلر کونراڈ آڈےناؤر نے مغربی جرمنی کی وفاقی پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں اپنی ہی کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے پارلیمانی گروپ کے کچھ ووٹوں کے خلاف اس معاہدے کو حتمی شکل دی تھی۔ آڈےناؤر کے اس اقدام نے انہیں جرمنی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات استوار کرنے والی جرمن شخصیت بنا دیا تھا۔
ادھر اسرائیل کی طرف سے جرمنی کے ساتھ مفاہمت کا ہاتھ بڑھانے والے ڈیوڈ بین گوریان اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم اور وزیر دفاع رہے تھے۔ اسرائیل کے اس عہد ساز سیاستدان نے سب سے پہلے '' دوسرے جرمنی‘‘ کے تصور کو پیش کیا۔ ان کی جرمن چانسلر کونراڈ آڈےناؤر سے 1960ء سے 1966 ء کے درمیانی عرصے میں محض دو بار ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود دونوں سیاستدان ایک فاصلے پر رہتے ہوئے بھی دوست دکھائی دیے تھے۔
1964ء میں اسرائیل کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی کی خبریں بین الاقوامی میڈیا میں شہ سرخیاں بنیں۔ جرمنی کا یہ اقدام 1965ء میں اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کے قیام کا حتمی محرک تھا۔ یہ تاہم ایک ایسا قدم تھا، جسے کم عمر یہودی ریاست میں بہت سے لوگوں کے لیے قبول کرنا مشکل تھا۔ اس وقت پہلے جرمن سفیر کی اسرائیل میں آمد مظاہروں کی وجہ سے متاثر بھی ہوئی تھی۔
کسی جرمن چانسلر کا پہلا دورہ اسرائیل
مشترکہ یادگاری تقریبات اور جرمن حکومتی نمائندوں کے اسرائیل کے دوروں کے ذریعے تعلقات آہستہ آہستہ مضبوط ہوئے۔ جون 1973ء میں ولی برانٹ پانچ روزہ سرکاری دورے پر اسرائیل کا سفر کرنے والے پہلے جرمن چانسلر تھے۔ ان کے جانشین ہیلمٹ شمٹ نے آٹھ سال تک جرمن چانسلر رہنے کے باوجود کبھی اسرائیل کا دورہ نہیں کیا تھا لیکن سن (1998-2005) کے دوران جرمن چانسلر رہنے والے گیرہارڈ شروئڈر سن 2000 میں دو روزہ دورے پر یروشلم گئے تھے۔
اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ اسرائیل اور اس کے عوام کے دوست کے طور پر وہاں گئے تھے۔ ان سے قبل جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے بھی بطور چانسلراپنے اقتدار کے 16 سالوں کے دوران دو بار اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔
2005ء سے 2021 ء تک چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے والی انگیلا میرکل نے جرمنی کے تمام دیگر چانسلروں سے زیادہ اور مجموعی طور پر آٹھ مرتبہ اسرائیل کا دورہ کیا۔ ان کا آخری سرکاری دورہ اکتوبر 2021 ء میں حکومتی سربراہ کے طور پر دستبردار ہونے سے چند ہفتے پہلے عمل میں آیا تھا۔
رابین 1975 میں مغربی جرمنی کا دورہ کرنے والے پہلے اسرائیلی سربراہ حکومت تھے اور اس دورے کے دوران انہوں نے مغربی برلن کا سفر بھی کیا تھا۔
حکومتی مشاورت
موجودہ جرمن چانسلر اولاف شولس نے سن 2022 میں یروشلم کا دورہ کیا تھا۔ تب وہ جرمن اسرائیلی حکومتی مشاورتی دور کے سلسلے میں برلن کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے لیے ایک دعوت نامہ لے کر یروشلم پہنچے تھے جو اب تک عمل میں نہیں آ سکا اور یہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں اب تک پائی جانے والی مفارقت کا ایک مظہر بھی ہے۔
2008 ء میں اس طرح کا پہلا حکومتی اجلاس یروشلم میں منعقد ہوا تھا۔ اس کے بعد 2018 ء تک مزید چھ اجلاس منعقد ہوئے۔ ان میں سے تین برلن اور تین مقبوضہ یروشلم میں منعقد کیے گئے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اب اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت کے تناظر میں کابینہ کے تمام اراکین کی موجودگی میں جرمنی اور اسرائیل کے مابین مشترکہ حکومتی مشاورتی اجلاس کے انعقاد کا تصور کرنا مشکل ہے۔
ک م / ش ر، م م (کرسٹوف اشٹراک)