جرمنی: تارکین وطن سے اکثر کیا سوال پوچھا جاتا ہے؟
22 مارچ 2019طاہر دیلا سے جب لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ اس کا کہاں سے تعلق ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ میونخ سے۔ طاہر1962ء میں جرمنی کے اسی شہر میں پیدا ہوا تھا۔ اس شہر اور صوبے کا اس کی شخصیت پر گہرا اثر ہے۔ تاہم گزشتہ دو برسوں سے وہ برلن میں مقیم ہے۔
اکثر لوگ طاہر دیلا کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوتے۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ اصل میں اس کا تعلق کہاں سے ہے؟ اس کے والدین یا آباؤ اجداد کہاں سے ہیں؟
دیلا کے مطابق، ’’جب میں کسی سے ملتا ہوں یا کوئی مجھ سے پہلی مرتبہ ملتا ہے تو ابتدائی طور پر یہی سوال اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے۔ سفید فام جرمن جب خود ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایسا کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا۔ ممکن ہے کچھ وقت کے بعد پوچھا جاتا ہے۔‘‘
سیاہ فام اور جرمن
طاہر ڈیلا کے بقول اس طرح کے سوالات پریشان کن ہوتے ہیں۔ وہ انہیں نسل پرستی کی ہی ایک قسم قرار دیتے ہیں، ’’ہو سکتا ہو کہ لوگ دلچسپی یا تجسس کی وجہ سے مجھ سے پوچھتے ہوں اور وہ مجھے پریشان نہ کرنا چاہتے ہوں لیکن مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔‘‘
تیس سال قبل طاہر دیلا ’جرمنی میں سیاہ فام شہری‘ کے نام سے شروع کی گئی ایک مہم کا حصہ تھے۔ دیلا کے نہ تو سنہری بال ہیں، نہ ہی وہ سفید فام ہیں اور وہ بار بار اپنے پس منظر کے بارے میں پوچھے جانے سے تنگ آ چکے ہیں۔
وراثت پر بحث
اس موضوع پر بات چیت حال ہی میں اس وقت شروع ہوئی، جب صوبہ باویریا کے ایک صحافی میلکم اوہانوے نے ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا، جس میں جرمن گلوکار ڈیٹر بوہلن ایک کاسٹنگ شو میں ایک پانچ سالہ بچی سے اس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ اس بچی نے کہا کہ وہ جرمن شہر ہیرنے سے آئی ہے۔
پھر بوہلن نے زور دے کر پوچھا، ’’تمہارے والدین کا تعلق کہاں سے ہے، فلپائن سے؟ جس پر بچی نے کہا کہ نہیں وہ بھی ہیرنے سے ہیں۔ پھر بچی سے سوال کیا گیا، ’’تمہارے والدین کہاں پیدا ہوئے تھے؟ تمہارے آباؤ اجداد کا تعلق کہاں سے ہے؟ اس پر بچی کی والدہ اسٹیج پر آئیں اور کہا کہ ان کا تعلق تھائی لینڈ سے ہے۔
ڈیلا نے کہا کہ ڈیٹر بوہلن کے سوال و جواب سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ ’’لوگ تو پانچ سالہ بچی سے بھی اس کے پس منظر جاننے کے لیے تفتیش کرتے ہیں کیونکہ اس موسیقار سے یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ بچی جرمن ہے۔‘‘