’وائمرٹرائینگل‘: جرمنی، فرانس اور پولینڈ کا اجلاس
15 مارچ 2024جمعہ 15 مارچ کو برلن میں پولینڈ، فرانس اور جرمنی کے رہنما ایک ملاقات کر رہے ہیں۔ اس سمٹ کو تین بڑی یورپی طاقتوں کا '' وائمر ٹرائی اینگل‘‘ اجلاس کہا جا رہا ہے۔ اس موقع پر یوکرین کے لیے مزید حمایت کے بارے میں بات چیت ہوگی اور کییف حکومت کے ساتھ اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ اس کا مقصد روسی جنگ سے تباہ حال ملک یوکرین کو درپیش فوجی وسائل کی کمی اور روس کے آئندہ انتخابات، جس میں صدر ولادیمیر پوٹن کے دور حکومت کی توسیع تقریباً یقینی ہے، کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
وفاقی جرمن چانسلر اولاف شولس، فرانسیسی صدرایمانوئیل ماکروں کر رہے ہیں اور پولش صدر ڈونلڈ ٹسک بھی برلن منعقدہ اس اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
'وائمر ٹرائینگل‘ فارمیٹ
پولینڈ کی گزشتہ قوم پرست حکومت کے دور میں پورپ کی تین بڑی اور اہم طاقتوں جرمنی، فرانس اور پولینڈ کے مابین تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ اب ان تینوں طاقتوں کے رہنما وائمر ٹرائینگل یا مثلث کو سہ فریقی باہمی تعلقات کو استوار کرتے ہوئے اس فارمیٹ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یوکرین کیا چاہتا ہے؟
کییف کی افواج یوکرین کے مغربی پارٹنرز سے مزید فوجی رسد کی امید لگائے ہوئے ہے۔ یوکرینی فوج کو یوکرین کے چند اہم ترین فرنٹ لائن پوائنٹس پر خود سے کہیں زیادہ بڑی اور انتظامی طور پر بہتر فوج کا سامنا ہے اور وہ روسی فوج کے دباؤ میں ہے۔ یورپی یونین کے منصوبے کے مطابق یوکرین کے لیے ایک ملین توپوں کے گولے یوکرینی فوج کی ضرورت سے کہیں کم ہیں۔ اُدھر امریکہ کی طرف سے سیاسی اختلافات کے تحت یوکرین کی امداد روک دی گئی ہے۔
جرمن چانسلر اولاف شولس نے بُدھ کو ایک بیان میں کہا تھا،'' ہمیں یوکرین کے لیے زیادہ سے زیادہ منظم تعاون اور امداد کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہییں۔‘‘ شولس کا یہ بیان دراصل اس سوال کا جواب تھا کہ آیا یوکرین کے لیے کافی گولہ بارود ، توپیں اور ہوائی دفاعی ساز و سامان موجود ہے یا نہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو جنگ جیتنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
فرانس اور جرمنی کے تعلقات
جرمن چانسلر شولس نے گزشتہ ماہ فرانسیسی صدر ماکروں کی طرف سے دیے گئے اس بیان کی اہمیت کو کافی حد تک کم کر دیا، جس میں ماکروں نے ایک کانفرنس میں کہا تھا،'' مستقبل میں یوکرین کے لیے مغربی زمینی فوج بھیجنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ اس بیان پر اپنے رد عمل میں جرمن چانسلر نے کہا تھا،'' مغربی اتحادیوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ یوکرین میں یورپی ممالک کی طرف سے کوئی زمینی فوج نہیں بھیجی جائے گی۔‘‘
جمعرات کو ماکروں نے اپنے موقف کا اعادہ کیا تاہم ان کا کہنا تھا،'' آج کی صورتحال میں زمینی فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
یوکرین کے اہم اتحادی
جرمنی ، فرانس اور پولینڈ یوکرین کے اہم اتحادیوں میں شامل ہیں۔ جرمنی امریکہ کے بعد یوکرین کو فوجی امداد فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور رواں سال اپنی امداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں حال ہی میں جرمن چانسلر نے لانگ رینج کروز میزائل Taurus کی یوکرین کو فراہمی سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر شولس کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
جرمنی، فرانس اور پولینڈ کے لیڈروں کے یہ سہ فریقی مذاکرات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب روس میں تین روزہ انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے، جس میں موجودہ صدر ولادیمیر پوٹن کی مزید چھ سال صدارت قائم رہنے کو تقریباً یقینی سمجھا جا رہا ہے۔
ک م/ ش ر(اے پی ای)