جرمنی میں 2022ء تک تمام ایٹمی بجلی گھر بند
30 مئی 2011چانسلر انگیلا میرکل کی صدارت میں چانسلر آفس میں یہ اجلاس اتوار کی شام شروع ہوا تھا اور پیر علی الصبح تک جاری رہا۔ تقریباً 12 گھنٹے تک جاری رہنے والے اِس اجلاس میں یونین جماعتوں کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU) اور کرسچین سوشل یونین (CSU) کے ساتھ ساتھ فری ڈیموکریٹک پارٹی (FDP) کے سرکردہ رہنما بھی شریک ہوئے۔ اِس اجلاس میں اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) اور گرین پارٹی کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔
اِس اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا اعلان وفاقی جرمن وزیر ماحولیات نوربرٹ روئٹگن نے کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ مارچ میں جاپان میں زلزلے اور سُونامی کے بعد فوکوشیما ری ایکٹرز کی تباہی کے پیشِ نظر جرمنی میں جن آٹھ ایٹمی بجلی گھروں کو عارضی طور پر بند کیا گیا تھا، اُنہیں اب بحال نہیں کیا جائے گا۔ اِس طرح جرمنی ایٹمی توانائی کو ترک کرنے والا پہلا بڑا صنعتی ملک بن جائے گا۔ یہ فیصلہ جرمن عوام میں پائے جانے والے اُن خدشات کے پیشِ نظر کیا گیا ہے، جن کے مطابق جاپان کے فوکوشیما ری ایکٹرز کی طرح کا جوہری حادثہ یہاں بھی پیش آ سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سن 2021ء تک زیادہ تر ایٹمی بجلی گھر بند کر دیے جائیں گے تاہم حفظ ماتقدم کے طور پر تین ایٹمی بجلی گھروں کو کھلا رکھا جائے گا تاکہ بجلی کی قلت کی صورت میں اُن سے استفادہ کیا جا سکے۔ ان تین ایٹمی بجلی گھروں کو ایک سال بعد یعنی 2022ء میں بند کیا جائے گا۔
کاروباری کمیونٹی کے حامیوں نے میرکل کی دائیں بازو کی اعتدال پسند حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ایٹمی توانائی سے دستبرداری کے سلسلے میں احتیاط سے کام لے۔ ساتھ ہی حکومت کو انتباہ کیا گیا تھا کہ بجلی کی قلت صنعتی شعبے کو مفلوج بنا سکتی ہے۔
اس سے پہلے ہفتہ 28 مئی کو کلیسائی نمائندوں، ماہرین تعلیم اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی سرکردہ شخصیات پر مشتمل ایک 17 رُکنی خصوصی پینل نے میرکل کو مشورہ دیا تھا کہ جرمنی اپنے آٹھ ایٹمی بجلی گھر اب بند کر دے اور بقیہ نوایٹمی بجلی گھروں میں بجلی پیدا کرنے کا کام بتدریج اگلے دَس برسوں کے اندر اندر ختم کر دیا جائے۔
اب تک جرمنی میں سترہ ایٹمی بجلی گھروں سے ملک کی بجلی کی 22 فیصد ضروریات پوری ہو رہی تھیں۔ اس پینل کی مفصل سفارشات میں، جو پیر کو جاری کی جانے والی ہیں، بتایا گیا ہے کہ کیسے یہ 22 فیصد ضروریات آئندہ گیس سے چلنے والے بجلی گھروں یا پھر پون چکیوں وغیرہ جیسے توانائی کے متبادل ذرائع سے پوری کی جا سکتی ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل