جرمنی میں اسلام بدل رہا ہے
7 نومبر 2015اس بارے میں جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ اس سال جرمنی میں جتنے بھی نئے مہاجرین یا تارکین وطن آئے ہیں، ان میں بہت بڑی اکثریت خانہ جنگی کے شکار شام، عراق یا پھر افغانستان کے باشندوں کی ہے۔ یہ تارکین وطن مسلمانوں کے طور پر اپنے ساتھ اسلام کا اپنا اپنا فہم اور سماجی اور مذہبی تصور بھی لائے ہیں۔
جرمنی میں آج تک قریب تین ملین یا اس سے بھی زیادہ مسلمانوں کی جو سب سے بڑی مذہبی اقلیت موجود رہی، اس کا تشخص بنیادی طور پر ترک تھا کیونکہ ان مسلمانوں میں سب سے بڑا نسلی گروپ ترک باشندوں ہی کا ہے۔
لیکن اب یہ تناسب تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے اور جرمنی میں آباد مسلمانوں میں ترک نسل کے مسلمانوں کی شرح نہ صرف کم ہو رہی ہے بلکہ ’جرمن اسلام‘ بھی مجموعی طور پر پہلے کے مقابلے میں ’زیادہ عرب اور متنوع‘ ہوتا جا رہا ہے۔
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ اب جرمنی میں مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے طور پر مکالمت اور بھی زیادہ ضروری ہو گئی ہے کیونکہ اب تک اس سلسلے میں کوئی متفقہ مذہبی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔
ڈی پی اے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مذہب کوئی بھی ہو، وہ مہاجرت یا بے وطنی کے شکار افراد کو سہارا دیتا ہے۔ جو نئے مسلمان مہاجرین اب تک جرمنی آئے ہیں، وہ اپنی آمد کے بعد عبادت کے لیے اپنے ارد گرد کے علاقوں میں مسجدیں ڈھونڈتے ہیں۔ اس طرح ان تارکین وطن کو مختلف شہروں میں نہ صرف مسلم برادری کے مقامی طور پر طاقتور سماجی ڈھانچے مل جاتے ہیں بلکہ اسی وجہ سے آئندہ جرمنی میں مختلف قومیتوں کے نمائندہ مسلمانوں کی بڑی تنظیموں کو حاصل اثر و رسوخ بھی تبدیل ہوتا جائے گا۔
جرمن شہر مائنز سے تعلق رکھنے والے اسلامی امور کے ماہر مروان ابو طعام کے مطابق اب تک جرمنی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم دیتیب (Ditib) ہے، جو ترک مسلمانوں کی اسلامی یونین ہے۔ باقی تمام مسلم تنظیمیں اس سے چھوٹی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام جرمن شہری کے لیے اسلام کا وہی تشخص زیادہ جانا پہچانا ہوتا ہے، جو ترک اسلامی تشخص ہے۔
لیکن مروان ابو طعام کے بقول نئے آنے والے مہاجرین کی بہت بڑی اکثریت شامی باشندوں کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اب ’جرمن اسلام‘ کے زیادہ ’عربیائے جانے کا رجحان‘ دیکھنے میں آئے گا۔ یہ وہ صورت حال ہے جو مثال کے طور پر مستقبل میں Ditib کی بجائے ’جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل‘ کے لیے ممکنہ مضبوطی کا باعث بنے گی، اس لیے کہ اس تنظیم کے رکن مسلمان زیادہ تر عرب مسلمان ہیں۔
اسی طرح بڑی تعداد میں عراقی تارکین وطن کی آمد کے بعد جرمنی میں شیعہ اسلام کے پیروکاروں کی تعداد بھی بدل جائے گی اور پھر افریقی ممالک اور افغانستان سے آنے والے مسلمانوں کی وجہ سے ملک میں مسلم اقلیت میں مختلف قومیتوں کے مسلمانوں کا تناسب بھی بدل جائے گا، جو جرمنی میں اسلام کی مجموعی تصویر میں مزید تنوع کا سبب بنے گا۔