جرمنی میں افغان پناہ گزینوں کی درخواستیں، فیصلے روک دیے گئے
1 جولائی 2017فُنکے میڈیا گروپ نے بی اے ایم ایف کے ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ جرمنی میں افغان تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے عارضی طور پر معطل کر دیے گئے ہیں۔
جرمنی میں نئی زندگی (2): کسے پناہ ملے گی اور کسے جانا ہو گا؟
جرمنی میں تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی
حالیہ مہینوں کے دوران افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں میں شدت دیکھی گئی ہے اور جون میں افغان دارالحکومت کابل کے انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے علاقے میں دہشت گردی کے ایک بڑے واقعے کے بعد جرمن حکومت نے افغان تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ بھی عارضی طور پر روک دیا تھا۔
ترک وطن اور مہاجرین کے امور سے متعلق اس وفاقی جرمن دفتر کا کہنا ہے کہ ملکی حکومت کی جانب سے افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال کا از سر نو جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس رپورٹ کے آنے تک جرمنی میں افغان شہریوں کی طرف سے جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر کوئی فیصلے نہیں کیے جائیں گے۔
تاہم بی اے ایم ایف یا وفاقی جرمن حکومت کی جانب سے ابھی تک واضح طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ افغانستان میں سکیورٹی صورت حال سے متعلق نئی رپورٹ کب تیار کی جائے گی۔
اس دوران بی اے ایم ایف افغان پناہ گزینوں کی جانب سے جمع کرائی جانے والی پناہ کی نئی درخواستیں بھی وصول کرتا رہے گا اور پرانی درخواستوں پر بھی کارروائی جاری رہے گی۔
بی اے ایم ایف کے مطابق افغان تارکین وطن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی نئی یا پرانی درخواستیں نمٹانے کے لیے انٹرویو سمیت دیگر مراحل جاری رہیں گے تاہم ان درخواستوں پر ابتدائی اور حتمی فیصلے فی الوقت جاری نہیں کیے جائیں گے۔
اس ادارے کی خاتون ترجمان نے اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ افغانوں کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے محض عبوری طور پر معطل کیے جا رہے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ سیاسی پناہ کے جرمن قوانین کے مطابق پناہ سے متعلق فیصلے چھ ماہ تک اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ عرصے تک کے لیے روکے جا سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے بھی اس خاتون ترجمان کا کہنا تھا کہ فی الحال صرف ایسے افغان باشندوں کو ہی جرمنی سے واپس افغانستان بھیجا جائے گا جنہیں جرمنی میں خطرہ سمجھا جاتا ہے یا جنہوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا ہو۔ اس کے علاوہ اپنی اصل شناخت چھپانے والے افغان باشندوں کو بھی ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جرمنی سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزاروں کو جلد واپس بھیجے گا