جرمنی میں الیکشن: پرسکون حالات میں ووٹنگ جاری
22 ستمبر 2013جرمنی میں آج کے عام انتخابات پر اندرون ملک ماہرین اور یورپی ملکوں اور باقی ماندہ دنیا کی بہت سی سیاسی شخصیات اور تجزیہ نگار نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ اس الیکشن میں موجودہ قدامت پسند چانسلر انگیلا میرکل اور ان کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین CDU کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
اس طرح عین ممکن ہے کہ انگیلا میرکل آئندہ دنوں میں مسلسل تیسری مرتبہ وفاقی چانسلر بن جائیں۔ لیکن بہت سے ماہرین کے بقول یہ بھی ممکن ہے کہ اب تک وفاقی مخلوط حکومت میں شامل ترقی پسندوں کی چھوٹی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی FDP یا تو پارلیمان میں نمائندگی کے لیے کم از کم پانچ فیصد عوامی تائید کا ہدف حاصل ہی نہ کر سکے یا اسے ملنے والے ووٹوں کی تعداد پانچ فیصد سے زائد لیکن ماضی کے مقابلے میں کافی کم رہے۔
ایسی صورت میں میرکل کی سی ڈی یو اور ان کی اب تک کی حکومتی اتحادی پارٹی ایف ڈی پی کے لیے مل کر نئی اکثریتی وفاقی حکومت تشکیل دینا ناممکن ہو گیا، تو میرکل کے لیے اس کے سوا شاید کوئی دوسرا راستہ باقی نہ بچے کہ وہ موجودہ ملکی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD کے ساتھ مل کر ایک نئی وسیع تر مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہو جائیں۔
انگیلا میرکل چانسلر کے طور پر اپنے دور اقتدار کے پہلے چار سال کے دوران بھی ایس پی ڈی کے ساتھ مل کر بنائی گئی ایک وسیع تر مخلوط حکومت یا گرینڈ کولیشن کی قیادت کر چکی ہیں۔ اس طرح غالب امکان یہ ہے کہ آج کے عام الیکشن کے نتیجے میں جو نئی جرمن حکومت بن سکتی ہے، اس میں میرکل تیسری مرتبہ چانسلر تو بن ہی سکتی ہیں، لیکن اگر یہ حکومت وہی نہ ہوئی جو اب تک بھی اقتدار میں ہے تو یہ وہی حکومت ہو گی جو چار سال پہلے تک بھی اقتدار میں تھی۔
59 سالہ انگیلا میرکل کی خاص بات یہ ہے کہ وہ آٹھ سال سے یورپ کی سب سے بڑی معیشت اور یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کی سربراہ حکومت چلی آ رہی ہیں۔ یورپی مالیاتی بحران کے نتیجے میں ماضی میں جہاں فرانس، یونان، اٹلی اور اسپین میں حکومتیں تبدیل ہوئیں، وہیں پر اپنی کامیاب اقتصادی سیاست کے ساتھ میرکل نے جرمنی کو نہ صرف اس بحران سے نکالا بلکہ خود کو دنیا کی سب سے طاقتور خاتون کے طور پر تسلیم بھی کرا لیا۔
اس کے علاوہ آج کے عام الیکشن سے پہلے تک کے عوامی جائزوں میں بھی میرکل اور ان کی پارٹی سی ڈی یو چانسلر کے عہدے کے لیے اپنے بڑے حریف امیدوار پیئر اشٹائن بروک اور ان کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے میں کافی آگے رہے ہیں۔