جرمنی میں سرگرم امریکی خفیہ ادارے، نئے انکشافات
20 نومبر 2013جرمن سرزمین پر آج بھی 43 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ جرمن اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائی ٹنگ‘ کے مطابق جرمن شہروں رمشٹائن اور اشٹٹ گارٹ میں واقع امریکی فوجی اڈوں ہی سے افریقی ریاست صومالیہ میں ڈرون حملوں کے احکامات جاری کیے گئے۔ صحافی جان گوئٹس کہتے ہیں کہ ’جرمن سرزمین پر ’افریکوم‘ نامی کارروائی کا فیصلہ وفاقی جرمن حکومت کے ساتھ مل کر کیا گیا تھا‘۔ گوئٹس اُن تقریباً بیس صحافیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے اس جرمن روزنامے اور نشریاتی ادارے NDR کے ایک مشترکہ منصوبے کے تحت دو سال تک اس موضوع پر تحقیق کی کہ امریکی خفیہ اداروں اور امریکی فوج کو جرمنی میں کس طرح کی عملی مدد مل رہی ہے۔
یہ صحافی آج کل ’خفیہ جنگ‘ کے عنوان سے اپنے انکشافات کو مرحلہ وار منظر عام پر لا رہے ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں کے ارکان جرمنی میں بندرگاہوں پر کنٹینرز کی چیکنگ کرتے ہیں اور اُنہیں یہ طے کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے کہ کونسا کنٹینر بحری جہاز پر لے جایا جا سکتا ہے اور کونسا نہیں۔ مزید یہ کہ وفاقی جرمن حکومت نے امریکی کمپنیوں کو 200 خصوصی اجازت نامے دے رکھے ہیں تاکہ یہ کمپنیاں امریکی حکومت کے ایماء پر جرمنی میں اہم سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ ان سرگرمیوں میں ایسے سافٹ ویئر کی تیاری اور اُس کا استعمال بھی شامل ہے، جو مواصلاتی سیاروں کی مدد سے دنیا بھر میں مخصوص افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتا ہو۔
ان صحافیوں کے مطابق فرینکفرٹ کے ہوائی اڈے پر امریکی ایجنٹوں نے جرمن پولیس کی مدد سے ایستونیا کے ایک مسافر کو تعطیلات پر اپنے وطن روانہ ہونے سے روک دیا تھا، حالانکہ اُس کے خلاف کوئی باقاعدہ اور بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری نہیں تھے۔ ایسی مزید مثالیں بھی دی گئی ہیں، جن کا مقصد سلامتی کے جرمن اور امریکی اداروں کے درمیان گہرے تعاون کو واضح کرنا ہے۔ ان مثالوں کو پرکھنے کے بعد اس امر کا امکان کم سے کم نظر آتا ہے کہ وفاقی جرمن حکومت جرمن سرزمین پر امریکیوں کی جاسوسی سرگرمیوں سے لاعلم تھی۔
جرمن سیاستدان نیٹو دستوں کے خصوصی تشخص کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغربی دفاعی اتحاد میں ساتھی ملک امریکا کے فوجیوں کو تحفظ اور آزادی سے کام کرنے کا موقع فراہم کرنا جرمن حکومت کی ذمے داری ہے۔ جرمن مؤرخ یوزف فوشے پوتھ نے ایک سال پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ 1950ء کے عشرے میں امریکا اور جرمنی کے مابین طے کیے گئے خفیہ سمجھوتوں پر آج بھی عمل ہو رہا ہے۔ امریکا میں گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ایسے مزید خفیہ سمجھوتے کیے گئے ہیں۔
صحافی جان گوئٹس کہتے ہیں:’’میرے لیے پریشان کن بات یہ تھی کہ وفاقی حکومت نے امریکا کے ساتھ یہ سارے سمجھوتے پارلیمان سے بالا بالا کیے۔‘‘ گوئٹس کو اپنی تحقیقات کے دوران یہ پتہ بھی چلا کہ جرمنوں نے امریکیوں سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ جرمنی میں اپنی سرگرمیوں کے مراکز کو خفیہ رکھیں۔ امریکی فوجی بریڈلی میننگ کی جانب سے وکی لیکس کو فراہم کردہ ایک مختصر امریکی سفارتی پیغام میں کہا گیا تھا کہ ’اس طرح کے مراکز کی موجودگی کا منظر عام پر آنا خواہ مخواہ ایک عوامی بحث چھیڑ دے گا‘۔
برلن میں امریکی سفارت خانہ ان انکشافات سے خاصا نالاں ہے۔ سفارت خانے نے انکشافات پر تبصرہ کیے بغیر تحریری طور پر یہ شکایت ضرور کی ہے کہ ’خواہ مخواہ اتنے بڑے بڑے دعوے کیے گئے ہیں اور الزامات لگائے گئے ہیں‘۔ تاہم جان گوئٹس کے مطابق اُن کے پاس اپنے ہر انکشاف کے لیے ایک سے زیادہ شواہد موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اور اُن کے ساتھیوں نے امریکی حکومت کے اُن ڈیٹا بینکس کو کھنگالا ہے، جہاں تک ہر کسی کی رسائی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکا جا کر خفیہ اداروں کے سابقہ ارکان سے انٹرویو کیے گئے ہیں، جو ’بڑی خوشی سے معلومات فراہم کرتے ہیں‘۔
’زُوڈ ڈوئچے سائی ٹنگ‘ اور NDR کے اس منصوبے کی بنیاد اُس وقت پڑی، جب ڈیجیٹل نقشے فراہم کرنے والی سروس’گوگل میپس‘ پر یہ دیکھا گیا کہ جرمنی میں کئی ایک مقامات کو جان بوجھ کر مٹا دیا گیا تھا یا نقشوں میں کسی مقامات پر جنگل دکھایا گیا تھا، حالانکہ وہاں کوئی جنگل نہیں تھا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ ان تمام مقامات پر دراصل امریکا کی سکیورٹی اور فوجی تنصیبات واقع تھیں۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان انکشافات کی بنیاد اُن کی اپنی تحقیقات پر ہے، نہ کہ امریکی ادارے NSA کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے منظر عام پر لائی گئی تفصیلات پر۔
ان انکشافات کے مطابق امریکیوں کو یہ موقع بھی فراہم کیا گیا ہے کہ وہ جرمن سرزمین پر رہتے ہوئے اغوا اور تشدد کی کارروائیوں کی تیاری کر سکیں۔ اس طرح کے انکشافات پر جرمن ماہرینِ قانون تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ وفاقی جرمن آئینی عدالت کے ایک سابف جج پاؤل کرش ہوف کہتے ہیں، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آئین استثنیٰ تو دیتا ہے لیکن ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے‘۔ تاہم دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے سکیورٹی امور کے ماہر رولف ٹوپ ہوفن کہتے ہیں کہ ’جو شخص بھی اندر کی باتیں جانتا ہے، اُسے ان انکشافات پر کوئی حیرت نہیں ہے‘۔