جرمنی میں مسلمانوں پر حملوں میں کمی
22 اگست 2018خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن حکومت کی طرف سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ سن دو ہزار اٹھارہ کی پہلی ششماہی کے دوران ملک میں مسلمانوں اور مساجد پر ہونے والے حملوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔
وزارت داخلہ کے مطابق اس عرصے میں ملک بھر میں مسلمانوں، مساجد اور مسلم کمیونٹی سیںٹرز کے خلاف مجموعی طور پر 320 جرائم رپورٹ کیے گئے۔ گزشتہ برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمنی میں مسلم کمیونٹی کے خلاف ایسے جرائم کی تعداد پانچ سو ریکارڈ کی گئی تھی۔
ان جرائم میں جسمانی حملوں کے علاوہ زبانی اور دھمکی آمیز خطوط یا ای میلز کو بھی شمار کیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ملکی پارلیمان میں لیفٹ پارٹی کی طرف سے استفسار پر یہ اعداد و شمار وفاقی وزرات داخلہ کی طرف سے بتائے گئے۔
جرمن میڈیا کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ کے پہلے چھ مہینوں کے دوران ملک میں مسلمانوں کے خلاف کیے گئے ان حملوں میں ملوث افراد کا تعلق دائیں بازو کے مختلف انتہا پسند گروہوں سے تھا۔
جرمن سیاسی جماعت لیفٹ پارٹی کی پارلیمانی رہنما اولا یلپکے نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جرائم میں کمی حوصلہ افزا ہے لیکن اس تناظر میں پیچیدگیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ’’معاشرتی سطح پر مسلم شہریوں کے ساتھ سماجی یک جہتی ابھی تک ناپید ہے۔‘‘
یلپکے نے مزید کہا کہ ان مسلمانوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اولا یلپکے کے مطابق مسلم شہریوں کے خلاف عدم اعتماد کے اظہار سے ان شہریوں کے بچے جرائم کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
جرمنی بھر میں سن دو ہزار سترہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف کیے گئے حملوں کی مجموعی تعداد ساڑھے نو سو کے قریب بنتی ہے۔ تاہم ملک میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی تعداد حقیقت میں کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے