1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی میں پاکستانیوں کی مسجد کے نائب امام کا قتل

مقبول ملک
22 دسمبر 2020

جرمن شہر شٹٹ گارٹ میں پاکستانی تارکین وطن کی قائم کردہ مسجد المدینہ کے چھبیس سالہ نائب امام کو قتل کر دیا گیا۔ مقتول کا نام شاہد نواز قادری تھا اور ان کا تعلق پاکستان میں ضلع گجرات سے تھا۔ حملہ آوروں کی تلاش جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/3n6yM
تصویر: Shaikh Munir/Vereinigung pakistanischer Migranten

جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے دارالحکومت شٹٹ گارٹ سے شائع ہونے والے اخبار 'شٹٹگارٹر سائٹنگ‘ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ مقتول پیر اکیس دسمبر کی شام گوئپنگن کاؤنٹی کے قصبے 'ایبرزباخ اَن ڈئر فِلز‘ میں اپنے گھر کے قریب سیر کر رہا تھا کہ نامعلوم افراد نے اس پر حملہ کر دیا۔

کئی دہائیوں تک پاکستانیوں کی خدمت کرنے والی جرمن ڈاکٹر کے لیے اعلیٰ اعزاز

پولیس کے مطابق، ''یہ شخص اس حملے میں جانبر نہ ہو سکا اور حملہ آور جو موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، ان کی تلاش جاری ہے۔‘‘ پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اس جرم کا ارتکاب دریائے فِلز کے قریب ایک نیم جنگلاتی علاقے میں سیر کے لیے جانے والوں کے لیے بنائے گئے پیدل راستے پر گیا گیا۔

شٹٹ گارٹ پولیس نے مقتول کی شناخت ظاہر کیے بغیر تصدیق کی کہ یہ 26 سالہ شخص اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ اطلاع ملنے پر پولیس فوراﹰ موقع پر پہنچ گئی تھی اور کئی پولیس اہلکاروں کی مدد سے اس جرم کے ممکنہ ثبوت محفوظ کر لیے گئے جبکہ حملہ آوروں کی تلاش کے لیے پولیس ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیا گیا تاہم یہ تلاش ناکام رہی۔

2021ء کا لائبنٹس ایوارڈ پاکستانی نژاد محققہ آصفہ اختر کے نام

پیشے کے اعتبار سے ٹیکسی ڈرائیور

شٹٹ گارٹ میں پاکستانی تارکین وطن اور پاکستانی نژاد جرمن شہریوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ویلفیئر سوسائٹی کے صدر شیخ منیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شاہد نواز قادری جس مسجد میں نائب امام تھے، وہ تنظیم انہوں نے ہی تقریباﹰ بیس سال قبل قائم کی تھی۔ اسی تنظیم نے تقریباﹰ اٹھارہ سال قبل مسجد المدینہ قائم کی تھی، جہاں شاہد نواز قادری مسجد کے خطیب اور امام شوکت مدنی کے نائب خطیب اور امام کے فرائض انجام دیتے تھے۔

جرمنی: پاکستانی پناہ گزین نے نوجوان مسافر کی پشت میں چھرا گھونپ دیا

شیخ منیر نے بتایا، ''شاہد نواز قادری اس مسجد میں اپنے فرائض رضا کارانہ بنیادوں پر انجام دیتے تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک ٹیکسی ڈرائیور تھے۔ اور انہوں نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ اور دو بچے چھوڑے ہیں۔‘‘

پاکستان ویلفئیر سوسائٹی شٹٹ گارٹ کے بانی صدر نے اس جرم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ''شاہد قادری اپنی اہلیہ کے ساتھ سیر کے لیے نکلے تھے کہ ان کے گھر سے کچھ ہی دور دو نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر پیچھے سے آ کر آہنی سلاخوں سے ان پر اور ان کی اہلیہ پر حملہ کر دیا تھا۔ ان کی اہلیہ اس حملے میں چوٹ لگنے سے زمین پر گر کر بے ہوش ہو گئی تھیں۔ جبکہ مقتول قادری پر حملہ آوروں نے متعدد وار کیے اور وہ بھی زمین پر گرتے ہی بے ہوش ہو گئے تھے۔‘‘

کورونا وبا میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بے لوث خدمات، پاکستانی حکومت کی پذیرائی

محرکات کی چھان بین جاری

شیخ منیر کے بقول، ''شاہد قادری کی اہلیہ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ جب ہوش میں آئیں تو ان کے شوہر شدید زخمی لیکن ابھی زندہ تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے مگر اسی وقت اس کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں ان کی اہلیہ نے ہی ان کے موبائل فون سے ایمرجنسی نمبر پر کال کر کے پولیس کو مدد کی درخواست کی تھی۔‘‘

پاکستانی شہریوں کے لیے جرمن ویزے کا حصول کتنا مشکل ہے؟

 اس حملے میں شاہد قادری کی اہلیہ کو معمولی زخم آئے، جنہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ پولیس ابھی تک اس جرم کے محرکات کی چھان بین کر رہی ہے۔

شاہد نواز قادری گزشتہ قریب ایک عشرے سے جرمنی میں مقیم تھے۔ ابھی تک پولیس نے ان کی لاش ان کے ورثاء کے حوالے نہیں کی۔ ضروری قانونی کارروائی پوری ہونے کے بعد جب یہ لاش ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دی جائے گی، تو اسے تدفین کے لیے پاکستان کے ضلع گجرات میں ان کے آبائی علاقے میں بھیج دیا جائے گا۔