جرمنی پہنچنے والے مہاجرین میں سے سوا لاکھ سے زائد غائب
26 فروری 2016جرمن اخبار ’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ نے وفاقی وزارت داخلہ کے اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جرمنی پہنچنے والے ہزارہا مہاجرین اور تارکین وطن رجسٹریشن کے بعد لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔
جمعہ 26 فروری کے روز اس اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں وزارت داخلہ کے پاس موجود معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس جرمنی آنے والے 1.1 ملین مہاجرین میں سے تیرہ فیصد رجسٹریشن کے بعد مطلوبہ مہاجر مراکز گئے ہی نہیں تھے۔
’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ کی رپورٹ کے مطابق وفاقی جرمن پارلیمان میں اپوزیشن جماعت ’دی لِنکے‘ کے استفسار پر وزارت داخلہ نے بتایا کہ جرمنی میں ایک لاکھ تیس ہزار مہاجرین کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کہ وہ کدھر ہیں۔
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق یہ لاپتہ مہاجرین اور تارکین وطن شاید دیگر ممالک چلے گئے ہیں یا پھر وہ جرمنی میں ہی غیر قانونی طور پر کام میں مصروف ہو چکے ہیں۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ لاپتہ ہونے والے ان افراد میں سے کچھ جرائم میں بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔
’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر شائع ہوئی ہے، جب وفاقی جرمن دفتر برائے مہاجرین اور تارکین وطن کے سربراہ فرانک ژُرگن ویزے Frank-Juergen Wiese نے کہا ہے کہ حکام کے پاس جرمنی میں سکونت پذیر چار لاکھ افراد کی شناخت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلن ریگولیشن کی وجہ سے جرمنی آنے والے مہاجرین کی شناخت کے بارے میں مسائل کا سامنا ہے۔ ڈبلن ریگولیشن کے مطابق یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کی رجسٹریشن اور ان کی شناخت کا کام وہی رکن ریاست کرے گی، جہاں وہ پہلی مرتبہ داخل ہوئے ہوں۔
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے ایک روز قبل یعنی کل جمعرات 25 فروری کو جرمن پارلیمنٹ میں قوانین کا ایک ایسا مجوزہ پیکج بھی منظور کر لیا گیا، جو پناہ کے متلاشی افراد کی جرمنی آمد کو مشکل بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ آج بروز جمعہ بنڈس راٹ (ایوان بالا) میں اس قانون پر بحث ہو رہی ہے۔
اس قانون سازی کا مقصد سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر عملدرآمد کو مؤثر اور تیز بنانا اور ایسے افراد کو ملک بدر کرنے میں سہولت فراہم کرنا ہے، جن کی پناہ کی درخواستوں کو رد کر دیا گیا ہے یا کر دیا جائے گا۔
کئی حلقوں نے اس مجوزہ قانون کی سخت شقوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے لیکن مہاجرین کے شدید بحران کے تناظر میں برلن حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کی مدد سے جائز مہاجرین اور تارکین وطن کی آباد کاری کے لیے انتظامی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔