جسٹس فائز عیسیٰ کو مبینہ دھکمیاں: کئی حلقوں ميں تشویش
25 جون 2020واضح رہے فاضل جج کی بیوی سیرینا عیسی نے اسلام آباد کے سیکریٹیریٹ پولیس اسٹیشن کو ایک درخواست دی ہے جس میں یہ شکایت کی گئی ہے کہ ان کے شوہر کو دھکمیاں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے اپنی درخواست میں لکھا، "میں قاضی فائز عیسی کی بیوی ہوں، جو سپریم کورٹ کے جج ہیں اور جنہیں موت کی دھمکی دی گئی ہے۔" انہوں نے ایک وڈیو کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اس میں ایک شخص نے کہا ان کے شوہر کو سرے عام گولی مارنی چاہیے۔ انہوں نے وڈیو کی یو ایس بی بھی پولیس کودرخواست کے ساتھ دی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گوگل سرچ میں اس شخص کا نام آغا افتخار الدین مرزا معلوم ہوا جو انکے شوہر کی تصویر پر ٹارگٹ کا نشان لگا رہا ہے لیکن انہیں نہیں پتہ کہ یہ نام اصلی ہے یا جعلی۔
ڈی ڈبلیو نے جب تھانہ سیکریٹریٹ میں تفصیلات کے لئے رابطہ کیا تو ایک اہلکار نے بتایا کہ قاضی فائز عیسی کی بیوی کو بتایا دیا گیا ہے کہ یہ معاملہ ایف آئی سے متعلق ہے اور یہ کہ مزید معلومات کے لئے تفتیشی افسر محمد نواز سے رابطہ کیا جائے۔ جب ڈی ڈبلیو نے محمد نواز سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں نہیں کہ مسز عیسی نے کوئی درخواست دی ہے یا نہیں۔ "مجھے نہیں معلوم کہ ایف آر درج کرائی گئی ہے یا نہیں اور مجھے درخواست کا بھی علم نہیں۔ آپ ایس ایچ او سے رابطہ کریں۔"
ایس ایچ او سید عاصم غفار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہمیں درخواست موصول ہوئی تھی لیکن معاملہ ایف آئی اے سے متعلق تھا، اس لئے ہم نے درخواست ان کو بھجوا دی ہے۔"
جب ان سے پوچھا گیا کہ جو وڈیو جسٹس فائز عیسی کی بیوی نے پولیس کو دی ہے، وہ کسی مذہبی رہنما کی ہے یا کسی اور شخص کی، تو ایس ایچ او نے کہا، "میں اس حوالے سے آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا۔"
مزید براں ایک مذہبی رہنما کی بھی ایک وڈیومنظر عام پر آئی ہے، جس میں سپریم کورٹ اور فائز عیسی کے خلاف انتہائی قابل اعتراض زبان استعمال کی گئی ہے اور ججوں کو نواز شریف اور زرداری کا ایجنٹ قرار دیا گیا ہے۔ اس وڈیو میں مذہبی رہنما نے مطالبہ کیا ہے کہ کوئی بھی کرپشن میں ملوث ہو، چاہے وہ نواز ہو، زرداری ہو یا فائز عیسی ان کو سرعام گولی ماری جائے۔
اس وڈیو اور دھکمیوں کی اطلاعات نے پاکستان میں کئی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ اس نے مذہبی رہنما کی وڈیو کے خلاف متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا ہے۔ کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اس وڈیو میں عدلیہ کو بالعموم اور قاضی فائز عیسی کو بالخصوص دھکمی دی گئی ہے۔ اس وڈیو میں تشدد پر اکسایا گیا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے؟"
انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ کچھ عناصر کا یہ طریقہ ہے کہ جس کو ایک دفعہ دشمن سجھ لیا جائے، پھر اس کو ذلیل کیا جائے۔ "اس وڈیو کا بھی یہی مقصد ہے کہ قاضی فائز عیسی اور ان کی فیملی کی تذلیل کی جائے۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے، جس پر پوری وکلاء برادری کو تشویش ہے۔"
اس وڈیو میں سابق صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے بھی اشتعال انگیز باتیں کی گئی ہیں۔ پی پی پی کے رہنما اور سابق ایم این اے چوہدری منظور نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہمیں اس وڈیو پر سخت تشویش ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جو اختلاف کرے یا ایک مختلف نقطہ نظر رکھے، اسے دشمن قرار دے دو۔ پارٹی اس مسئلے پر بات چیت کرے گی۔"
ناقدین کا خیال ہے کہ قاضی فائز عیسی نے فیض آباد کے مشہور مقدمے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی، اس لئے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے فائز عیسی کو ان کے فیصلوں کی وجہ سے سزا دی جارہی ہے۔ "کوئٹہ میں جو وکلاء پر حملہ ہوا تھا، اس میں فائز عیسی نے بہت اچھا فیصلہ دیا تھا، جس پر اسٹیبلشمنٹ ان سے سخت ناراض تھی۔ پھر انہیں فیض آباد دھرنے والا فیصلہ بھی پسند نہیں آیا۔ تو قاضی صاحب کو ان ہی فیصلوں کی سزا دی جارہی ہے۔ ایف بی آر کے ذریعے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے حالانکہ عدالت کہہ چکی ہے کہ قاضی صاحب کو ان کی بیوی کی جائیداد سے کوئی لینا دینا نہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ جو ایک مذہبی رہنما کی وڈیو نظر عام پر آئی ہے، وہ انتہائی پریشان کن بات ہے۔ "یہ صرف فائز عیسی کے خلاف نہیں بلکہ پوری عدلیہ کے خلاف ایک سازش ہے اور یہ عدلیہ پر حملہ ہے، جس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ سب کو پتہ ہے کہ مذہبی رہنماوں کی ایک بڑی تعداد جمہوریت مخالف ہے اور وہ کسی کے کہنے پر ہی ایسا کچھ کرتے ہیں۔ یہ مذہبی رہنما جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے خلاف کیوں نہیں بولتے، جنہوں نے آئین توڑا۔"
سابق وفاقی وزیر برائے جہاز رانی اور بندرگاہ میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ اس طرح کی دھکمیوں سے پاکستان کی دنیا میں بدنامی ہورہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، "حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس مسئلے کی تفتیش کرے اور ان دھکمیوں کے پیچھے جو عناصر ہیں، ان کو بے نقاب کرے۔ مہذب دنیا میں کوئی عدلیہ کو اس طرح بدنام کرنا کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ ملک کے وقار اور عزت پر حملہ ہے، جس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔"