جماعت الدعوہ، جہاد کی بجائے معیشت پر زیادہ زور
12 جولائی 2011مجاہد کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم جہاد کے بجائے معیشت پر زیادہ زور دیتی ہے۔ یہ بات یحییٰ مجاہد نے لاہور میں خبر ایجنسی روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتائی۔
لشکر طیبہ ایک ایسا کالعدم عسکریت پسند گروپ ہے، جس پر امریکہ اور بھارت کی طرف سے نومبر2008 میں ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان حملوں میں کم ازکم 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لشکر طیبہ پر اقوام متحدہ کے علاوہ پاکستان، بھارت اور کئی دیگر ملکوں کی طرف سے بھی پابندی لگائی جا چکی ہے۔ جماعت الدعوہ کو اس کالعدم تنظیم کا ذیلی ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔ جماعت الدعوہ کے لشکر طیبہ کے ساتھ رابطوں کی وجہ سے اقوام متحدہ جماعت الدعوہ کے خلاف بھی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔ خود جماعت الدعوہ کا کہنا ہے کہ اس کا لشکر طیبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس انٹرویو کے دوران چائے پیتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ کے ترجمان ہیں، یہ درست نہیں ہے۔ اس گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ سب سے اہم مسئلہ جہاد یا کشمیر کا تنازعہ نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت ہے۔
جماعت الدعوہ کے اس ترجمان کے بقول پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل اس کی اقتصادی ترقی میں ہے۔ یحییٰ مجاہد نے کہا، ’’پاکستان میں پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔ ان حالات میں ہم ملک میں بم دھماکوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
خبر ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ یہ بیان ایک ایسی تنظیم کی عوامی سطح پر اختیار کی گئی پالیسی کا حصہ ہے، جس پر اقوام متحدہ کی طرف سے پابندی لگائی جا چکی ہے۔
روئٹرز نے لاہور سے اس بارے میں اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جماعت الدعوہ کے ترجمان کے ساتھ بات چیت میں اگر پاکستانی معیشت کی خراب حالت مرکزی موضوع بنی رہی تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کی خراب اقتصادی حالت ہر کسی کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ یہاں تک کہ ماضی میں لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ کی مبینہ طور پر سرپرستی کرنے والی پاکستانی فوج کے لیے بھی، جو پہلے ہر وقت کشمیر کے مسئلے اور بھارت کی وجہ سے درپیش خطرات کی بات کرتی تھی۔
اب تو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ملک کی کمزور معیشت اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت صرف مقامی طالبان کے مسلح حملوں کا سامنا ہی نہیں ہے بلکہ مہنگائی، وسیع تر بدعنوانی، مسلسل لوڈ شیڈنگ ایسے بڑے مسائل ہیں،جن پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو استحکام اور اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے۔
محمد یحییٰ مجاہد کے مطابق جماعت الدعوہ نے لشکر طیبہ کے ساتھ اپنے رابطے سن 2001 میں ہی ختم کر دیے تھے۔ تاہم کئی سکیورٹی ماہرین اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن پاکستان اور اس کے عوام کے لیے یہ بات واقعی تکلیف دہ ہے کہ اس سال ملک میں اقتصادی ترقی کی شرح کا اندازہ 2.4 فیصد لگایا گیا ہے لیکن افراط زر کی شرح کم از کم بھی 14 فیصد ہے، جس کے آنے والے ہفتوں میں اور بھی زیادہ ہو جانے کا امکان بہت زیادہ ہے۔
امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی جنوبی ایشیائی امور کی ایک ماہر کرسٹین فیئر کہتی ہیں کہ لشکر طیبہ کی بھارت اور افغانستان میں کارروائیاں زیادہ شدت پسندانہ ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں یہ گروپ اپنے سوشل نیٹ ورک کو مزید پھیلا رہا ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امجد علی