جنرل باجوہ کی ملازمت کا تنازع، وزیر قانون مستعفی
26 نومبر 2019منگل کو وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد وفاقی وزرا کی نیوز کانفرنس میں بتایا گیا کہ وزیر قانون فروغ نسیم نے استعفیٰ دے دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق فروغ نسیم اب سپریم کورٹ میں آرمی چیف کے وکیل کی حیثیت میں پیش ہوں گے، جبکہ اٹارنی جنرل انور منصور حکومت کی نمائندگی کریں گے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے آرمی چیف کے مدت ملازمت میں توسیع کے طریقہ کار پر تحفظات کے بعد حکومت نے پاکستان ڈفینس سروسز رولز میں ترمیم کی ہے اور اپنا پچھلا نوٹیفیکشن واپس لے لیا ہے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے اس معاملے پر سماعت کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا سرکاری نوٹیفیکشن معطل کر دیا اور کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔
جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکشن عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔ پٹیشن ریاض حنیف نامی شخص نے دائر کی تھی۔ منگل کو جب ریاض حنیف نے اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا۔
عدالت نے جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات کو کو حکم دیا کہ وہ خود یا اپنے وکیل کے ذریعے اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کریں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ دستور کے تحت وزیراعظم کے پاس فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافہ کرنے کا اختیار نہیں اور یہ توسیع صرف صدر پاکستان کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر کی منظوری کے بعد وزیراعظم نے مدت ملازمت میں توسیع کیوں کی۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع صدر پاکستان کی منظوری سے ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں صدر کو پیش کی جانے والی سمری کو وزیراعظم کی کابینہ نے باضابطہ منظور کیا تھا اور اسی منظور شدہ سمری پر وزیراعظم نے دستخط کیے تھے۔
عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس کو اٹارنی جنرل نے یہ بھی بتایا کہ پاکستانی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ایک پٹیشن پشاور ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئی تھی لیکن اُس کو بعد میں واپس لے لیا گیا تھا۔