جنوبی سوڈان میں جنسی تشدد انتہا پر ہے، اقوام متحدہ
21 اکتوبر 2014مسلح تنازعات کے دوران روا رکھے جانے والے جنسی تشدد کے موضوع پر کام کرنے والی اقوام متحدہ کی خصوصی مندوب زینب بنگورا نے جنوبی سوڈان میں خواتین کی صورتحال اور بالخصوص ایک دو سالہ بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’گزشتہ تیس برسوں کے دوران میں نے اس طرح کا واقعہ نہیں دیکھا۔‘‘ پیر کے دن نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنوبی سوڈان کے شمالی علاقوں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے، جہاں خانہ جنگی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والی خواتین کو مختلف اقسام کے تشدد کا سامنا ہے۔
2011ء میں سوڈان سے آزادی حاصل کرنے والے اس افریقی ملک میں گزشتہ برس دسمبر میں اس وقت لڑائی کا آغاز ہوا تھا، جب صدر سلوا کیر نے اپنے نائب ریک مچار کو برطرف کیا تھا۔ یہ سیاسی تنازعہ جلد ہی نسلی بنیادوں پر نفرت کا سبب بن گیا، جس کے بعد دو بڑے قبائل میں جاری تصادم خانہ جنگی میں بدل گیا تھا۔
حال ہی میں جنوبی سوڈان کا دورہ کرنے والی زینب بنگورا کے بقول، ’’اس تنازعے میں بچ جانے والے افراد اور طبی اہلکاروں نے مجھے دل دہلا دینے والی کہانیاں سنائی ہیں، جن میں آبروریزی، اجتماعی زیادتی، اغوا، جنسی غلامی اور زبردستی کی شادیاں شامل ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جو لوگ حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کی کوشش کرتے ہیں، انہیں اکثر مختلف آلات سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یہاں تک کہ کچھ افراد اس دوران ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
زینب بنگورا نے لزرہ خیز حقائق بیان کرتے ہوئے کہا کہ متحارب گروہوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنائے جانے والوں میں خواتین، مرد اور لڑکیوں کے علاوہ لڑکے بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 74 فیصد واقعات میں اس طرح کے تشدد کا نشانہ بننے والوں کی عمریں اٹھارہ برس سے کم ہیں، ’’کم عمر ترین متاثرہ لڑکی کی عمر دو برس ہے، جس کا علاج کیا جا رہا ہے۔‘‘
بنگورا نے کہا ہے کہ فریقین اپنے حامیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ دوسرے قبائل کی خواتین کی عزتیں لوٹیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنائیں۔ انہوں نے بتایا کہ بانتیو نامی ایک شہر کے مقامی ایف ایم ریڈیو میں ایسی اپیلیں نشر کی جاتی ہیں کہ نسلی بنیادوں اور سیاسی وابستگیوں پر خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ اس تنازعے کے دوران وہاں متاثرین کے نفسیاتی اور طبی مراکز کی عدم موجودگی پر بھی انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ادھر تنزانیہ کے شہر اروشا میں جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر اور باغی رہنما ریک مچار نے ایک ملاقات میں ملک میں گزشتہ دس ماہ سے جاری خانہ جنگی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس بحران کے خاتمے کی فوری کوشش کا عہد ظاہر کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اسی تنازعے کی وجہ سے جنوبی سوڈان میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پیر کے دن ان دونوں رہنماؤں نے عہد کیا کہ سیاسی اختلافات کو دور کرتے ہوئے حکمران پارٹی پیپلز لبریشن موومنٹ کو ایک مرتبہ پھر متحد کیا جائے گا۔