جنوبی وزیرستان: لڑکیوں کا اسکول دھماکے سے اڑا دیا گیا
17 مئی 2024پولیس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں کیا گیا جب رات کو وہاں کوئی موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
مقامی پولیس اہلکار صفدر خان نے کہا کہ رواں ماہ اسی علاقے میں ایک اور اسکول کو بری طرح نقصان پہنچانے کے بعد تخریب کاری کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
فوری طور پر کسی نے بھی اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن شبہ ہے کہ اسے عسکریت پسندوں، خاص طور پر پاکستانی طالبان نے تباہ کیا ہے۔ پاکستانی طالبان خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں اور وہ ماضی میں بھی اس صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ خواتین کو تعلیم نہیں دینا چاہیے۔
چند برس پہلے، اُس وقت بھی پاکستان کے شمال مغرب میں لڑکیوں کے اسکولوں پر متعدد حملوں ہوئے تھے، جب پاکستانی طالبان سوات سمیت متعدد قبائلی علاقوں پر قابض تھے۔ پاکستانی طالبان، جنہیں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کہا جاتا ہے، کو حالیہ برسوں کے دوران سوات اور اس سے ملحق دیگر علاقوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔
لیکن پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے پاکستانی طالبان کو بھی حوصلہ ملا ہے اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران ان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی طالبان پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف بھی پے در پے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان کے پاس وہ جدید ہتھیار بھی ہیں، جو نیٹو فورسز افغانستان میں چھوڑ گئی تھیں۔
ایک ہفتہ قبل شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے دو خونریز حملوں میں کم از کم سات پاکستانی سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔ ان حملوں میں دو سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔
شمالی وزیرستان میں سات سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی وجہ بننے والے دونوں حملے اس واقعے کے محض چند ہی روز بعد کیے گئے، جس میں عسکریت پسندوں نے اسی ضلع میں لڑکیوں کے ایک اسکول پر بم حملہ کیا تھا۔
وزیرستان ماضی میں وفاقپاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقے یا فاٹا کہلانے والے ان چھ نیم خود مختار خطوں میں سے ایک ہے، جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ چند برس قبل ان قبائلی علاقوں کو اضلاع کا درجہ دے کر باقاعدہ طور پر صوبے خیبر پختونخوا میں شامل کر لیا گیا تھا۔
ا ا / ع ت )اے پی، ڈی پی اے)