جنوبی کوریا: صدر نے مارشل لاء نافذ کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا
12 دسمبر 2024جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے جمعرات کے روز ملک میں مختصر مدت کے مارشل لا کے نفاذ کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کی جمہوریت کے تحفظ کے لیے ایک اقدام تھا۔
صدر سے فی الوقت مبینہ بغاوت کی مجرمانہ تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ملک کو "شمالی کوریا کی حامی قوتوں" سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کے اس اقدام نے ملک کو سیاسی بحران میں ڈال دیا ہے۔
جنوبی کوریائی صدر کے پارلیمانی مواخذے کی تحریک ناکام
'آخر تک لڑنے' کا عزم
صدر یون نے ٹیلیویژن پر اپنے بیان میں حزب اختلاف پر الزام لگایا کہ وہ انہیں عہدے سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، "میں ان قوتوں اور جرائم پیشہ گروہوں کو روکنے کے لیے آخری دم تک لڑوں گا، جو ملک کی حکومت کو مفلوج کرنے کے ذمہ دار ہیں اور جمہوریہ کوریا کے مستقبل کے لیے خطرہ بننے کے لیے ملک کی آئینی حکومت میں خلل ڈال رہے ہیں۔"
انہوں نے ملک کی قومی اسمبلی کو ایک ایسا عفریت قرار دیا جو لبرل جمہوریت کے آئینی نظام کو تباہ کر دیتا ہے۔ ایوان فی الوقت حزب اختلاف کی بڑی جماعت کے کنٹرول میں ہے اور صدر نے اس حوالے سے "قومی بحران" کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا، "اپوزیشن اب افراتفری کے خنجر لے کر رقص کر رہی ہے اور یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ مارشل لاء کا اعلان بغاوت کی کارروائی تھی۔ لیکن کیا واقعی ایسا تھا؟"
جنوبی کوریا: وزیر دفاع مستعفیٰ اور صدر کے مواخذے کی کوشش
جمعرات کے روز ان کے یہ تازہ تبصرے ان کے پہلے موقف سے بالکل برعکس ہیں، جس میں انہوں نے عوام سے یہ کہتے ہوئے معافی طلب کی تھی کہ مارشل لاء کے اعلان سے "لوگوں کو صدمہ پہنچا" ہے اور انہوں نے اپنی مدت صدارت کا معاملہ اپنی پارٹی کو سونپ دیا ہے۔
ان کے یہ بیانات ایک ایسے وقت آئے ہیں، جب یون کی اپنی پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) کے رہنما ہان ڈونگ ہون نے کہا ہے کہ صدر کے استعفیٰ دینے کے کوئی آثار نہیں نظر آ رہے ہیں، اس لیے ان کا مواخذہ ہونا چاہیے۔
جنوبی کوریا میں ناکام مارشل لاء کے بعد اب کیا ہو گا؟
صدر کے مواخذے کی دوسری کوشش
حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی (ڈی پی کے) نے صدر کے خلاف مواخذے کی نئی تحریک پیش کی ہے اور ان کا یہ بیان اس سے محض چند گھنٹے قبل آیا۔
اپوزیشن کی مواخذے کی پہلی کوشش گزشتہ ہفتے کے روز اس وقت ناکام ہو گئی جب حکمران جماعت نے ووٹ کو روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ صدر یون کے کئی اعلیٰ عہدیداروں کو پہلے ہی یا تو گرفتار کیا جاچکا ہے یا پھر حراست میں لیا گیا ہے اور ملک میں مارشل لا لگانے میں ان کے کردار کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
جنوبی کوریا: مارشل لاء کی افراتفری اور صدر سے استعفے کا مطالبہ
ملک کے سابق وزیر دفاع کم یونگ ہیون، جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مارشل لا کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، نے دوران حراست اپنی جان لینے کی بھی کوشش کی ہے۔
جنوبی کوریا کے حکام نے صدر پر بیرون ملک سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اور گزشتہ ہفتے کے واقعات کی تحقیقات کے دوران ان کے دفتر کی تلاشی لی گئی تھی۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)