جوہری سلامتی کی سربراہی کانفرنس
14 اپریل 2010واشنگٹن ميں،جوہری سلامتی کی سربراہی کانفرنس ميں ايک دوسرے سے بہت مختلف نظريات رکھنے والے ممالک کے سربراہوں نے مل جل کر اس پر غور کيا کہ ايٹمی ہتھياروں کی تياری کے قابل جوہری مواد کو کس طرح دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے محفوظ کيا جاسکتا ہے۔ اس خوف کے بجا ہونے کا اندازہ صرف اسی حقيقت سے لگايا جاسکتا ہےکہ اس وقت دنيا ميں 1500 ٹن انتہائی افزودہ یورینیم اور 600 ٹن پلوٹونيم موجود ہے۔ ان تابکار مادوں کی مدد سے ہزاروں ايٹم بم تيار کئے جاسکتے ہيں۔ اگر يہ جوہری مادے دہشت گردوں کے ہاتھھ لگ جائيں تو جو تباہی پھيل سکتی ہے اُس کا اندازہ بھی نہيں لگايا جا سکتاہے۔
اگرچہ جوہری سلامتی کی اس سربراہی کانفرنس میں شریک ممالک نے صرف جوہری مواد کی حفاظت کے ارادوں ہی کا اعلان کيا ہے، ليکن 47 رياستوں کا مل جل کر اس پر غور کرنا بھی ايک بڑا قدم ہے۔ اس کا متبادل آخر کيا ہوتا؟ کيا يہ کہ کچھ بھی نہ کيا جائے کيونکہ ايک ايسا بين الاقوامی معاہدہ ويسے ہی ممکن نہيں ہے جس کی پابندی لازمی ہو۔
امريکی صدر بارک اوباما نے ايک بار پھر ثابت کرديا ہے کہ وہ عمليت پسند ہيں اور يہ شعور رکھتے ہيں کہ ممکن کیا ہے۔ کانفرنس کے شرکاء نے اُنہيں اس کا صلہ بھی ديا۔ يوکرين، ميکسيکو اور کينيڈا بہت زيادہ افزودہ يورينيم سے اجتناب کرنے کے لئے تيار ہيں۔ روس نے امريکہ کے ساتھ اس کی حامی بھر لی ہے کہ وہ ايٹمی ہتھيار بنانے کے قابل فاضل پلوٹونيم کو توانائی کے حصول کے لئے استعمال ميں لاکر ضائع کردے گا۔ جب روسی اور امريکی دونوں ايک سربراہی کانفرنس کو، جس کا تعلق جوہری مادوں سے تھا، کامياب قرار دے رہے ہيں اور چين تک بھی کسی بھی اعتراض کے بغير اختتامی اعلامیے پر راضی ہوا ہے، تو اسے ايک کاميابی ہی کہنا چاہيے۔
اس سلسلے ميں مزید ٹھوس اقدامات کی ضرورت سے انکار نہيں کيا جاسکتا۔ بھارت، پاکستان اور اسرائيل کے پاس کھلے يا چھپے طور پر ايٹمی ہتھيار ہيں اور اُنہوں نے ايٹمی اسلحے کے عدم پھيلاؤ کے معاہدے پر دستخط بھی نہيں کئے ہيں۔ايران نے اس معاہدے پر دستخط تو کئے ہيں، ليکن بين الاقوامی برادری کے مطابق وہ ايٹم بم بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے باوجود اگر امريکہ اور روس دوسرے ملکوں کو اُن کا جوہری مواد محفوظ بنانے ميں مدد ديتے ہيں تو يہ باہمی اعتماد قائم کرنے والے اقدامات بھی ہيں۔
اگر جلد ہی جوہری مادوں کے استعمال کے ايسے معيار بنا لیےجائيں جن کی پابندی عالمی سطح پر کی جائے تو اس کا وقت واقعی آ پہنچا ہے اور اس طرح ماضی کی کوتاہيوں کی کسی حد تک تلافی بھی ہوجائے گی۔
يہ بات کہ امريکہ اس سلسلے ميں خود بھی کوئی درخشاں مثال نہيں ، اس کا حوالہ خود امريکی صدر نے ديا: ابھی کچھھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ايک بی۔ باون بمبار نے امريکہ کے ايک سے دوسرے سرے تک پرواز کی اور اُس کے اترنے کے 10 گھنٹوں بعد پتہ چلا کہ گھنٹوں تک رن وے پر بغير کسی پہرے کے کھڑا بمبار طيارہ ايٹمی ميزائلوں سے ليس تھا۔
تبصرہ: کرسٹينا برگمن ⁄ شہاب احمد صدیقی
ادارت: افسر اعوان