جیل بھرو تحریک: تاریخی پس منظر
22 فروری 2023
جیل بھرو تحریکاحتجاج یا مزاحمت کا ایک طریقہ ہے، جس کے ذریعے سرکار کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا تنظیم کے مطالبات پر کان دھرے اور اس کو منظور کرے۔ ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے پاکستان میں جیل بھرو تحریک کی تاریخ پر مختلف مبصرین اور سیاسی شخصیات سے بات چیت کی اور ان تحریکوں کا تاریخی پس منظر جاننے کی کوشش کی۔
پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ جیل بھرو تحریک اس خطے میں سب سے پہلے نوآبادیاتی دور میں آئی، جب مہاتما گاندھی نے نوآبادیاتی دور اور برطانوی راج کے خلاف مختلف مواقع پر احتجاج کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیونکہ اس وقت کا شمال مغربی صوبہ جسے آج خیبرپختونخواہ کہا جاتا ہے وہ سرحدی گاندھی باچاخان کے زیر اثر تھا، اس لیے جب ہندوستان میں جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوا، تو ان سے یکجہتی دکھاتے ہوئے چارسدہ اور پشاور سمیت کئی علاقوں میں خدائی خدمتگاروں نے گرفتاریاں دیں۔‘‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد پہلی جیل بھرو تحریک پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے شروع کی گئی، جو بنیادی طور پر بھٹو کی حکومت کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے مراکز کراچی سمیت پاکستان کے کئی بڑے شہر تھے۔ اس کے علاوہ سن 1983 میں ایم آر ڈی یا تحریک بحالی جمہوریت کے دوران بھی جیل بھرو تحریک شروع ہوئی، جس میں سینکڑوں کارکنان گرفتار ہوئے۔‘‘
عمران خان کے قریبی ساتھی فواد چوہدری گرفتار
توصیف احمد خان کے مطابق،'' انیس سو اٹہتر میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی طرف سے بھی جیل بھرو تحریک شروع کی گئی، اس مہم کے دوران بہت سارے صحافیوں نے گرفتاری پیش کی اور صحافیوں سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے بہت سارے ٹریڈ یونین لیڈرز نے بھی گرفتاری پیش کی۔‘‘
ملکی سطح پر اس طرح کی جیل بھرو تحریک کے علاوہ وہ علاقائی سطح پر بھی کچھ سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینز اور دوسری تنظیموں نے جیل بھرو تحریکیں شروع کی ہیں۔
ایم کیو ایم کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے بھی 90 کی دہائی میں جیل بھرو تحریک شروع کی تھی، جس کا مقصد بنیادی طور پر ماورائے عدالت قتل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے اس تحریک کو سن 1994 میں شروع کیا تھا اور ہمارے ایک ہزار سے زیادہ کارکنان اور رہنماؤں نے گرفتاری پیش کی تھی۔ ہمیں 1997ء کے الیکشن سے پہلے رہا کیا گیا۔‘‘
ڈاکٹر فاروق ستار کے مطابق،''اس تحریک کا مقصد ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز اٹھانا تھا اور جب فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی گورنمنٹ ختم کی تو ماورائے عدالت ہلاکتوں کو ان کی برطرفی کی وجوہات میں سے ایک وجہ قرار دیا۔‘‘
استعفوں کی منظوری: سیاسی بحران سنگین ہونے کا خطرہ
فاروق ستار کا دعوی تھا کہ اس جیل بھرو تحریک کی وجہ سے ماورائے عدالت ہلاکتوں کا علم ایک عام آدمی کو ہوا جب کہ حکام کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑا۔
سیاسی جماعتوں کے علاوہ کچھ ٹریڈ یونینز اور چھوٹی تنظیموں نے بھی جیل بھرو تحریک شروع کی لیکن ان اثر کچھ علاقوں تک ہی محدود رہا۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور امداد قاضی کا کہنا ہے کہ ستر کی دہائی کے آخری سالوں میں الائیڈ ملز کے مزدوروں نے لاڑکانہ میں تحریک شروع کی تھی۔ امداد قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملز کے مالکان کا کراچی سے تعلق تھا اور انہوں نے یہ مل اس خوف سے بند کر دی تھی کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد کہیں ان کو مالی طور پر نقصان نہ ہو۔ انہوں نے یہ مل بند کر 600 سے زیادہ مزدوروں کو بیروزگار کردیا تھا، تو ان بے روزگار مزدوروں نے ٹریڈ یونین کی مدد سے جیل بھرو تحریک شروع کی، جس میں بعد میں روہڑی سکھر اور دوسرے علاقوں کے مزدور بھی شامل ہوگئے۔‘‘
اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ: پی ٹی آئی کو فائدہ ہوگا؟
جیل بھرو تحریک کی کامیابی
جیل بھرو تحریک رضا کارانہ گرفتاریوں سے شروع ہوتی ہے اور اس میں تشدد کا عنصر کم ہوتا ہے، اسی لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شاید اس سے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوتی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس کا سیاسی ماحول پر اثر ضرور پڑتا ہے۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان قومی اتحاد ذوالفقارعلی بھٹو کے لیے مشکلات کھڑی کرنا چاہتا تھا اور اس میں شامل کچھ جماعتیں ملک میں مارشل لاء کا نفاذ بھی چاہتی تھی۔ ''پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اور بعد میں رضاکارانہ گرفتاریوں نے انہیں ان کے مقاصد حاصل کرنے میں مدد دی۔ ایم آر ڈی کے تحریک کے دوران بھی جیل بھرو تحریک شروع کی گئی، اس سے حکومت پر اخلاقی دباؤ پڑا جب کہ صحافیوں کی تحریک کی وجہ سے انہیں وقتی طور پر بحال کیا گیا۔‘‘