یہ کراچی کے علاقہ لانڈھی ميں واقع جووینائل جيل کی ایک بيرک تھی، جہاں سابق وزیر اعظم مياں نواز شريف اپنے بھائی مياں شہباز شريف اور ن لیگ کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، غوث علی شاہ اور سابق آئی جی سندھ رانا مقبول احمد مرحوم کے ساتھ ڈائريکٹر جنرل سول ايوی ايشن اتھارٹی کے ہمراہ قید تھے۔ ان سب پر 1999ء میں سابق فوجی سربراہ جنرل پرويز مشرف مرحوم کے طيارے کی ہائی جيکنگ کی سازش کا الزام تھا۔
شریف برادران کو جس بیرک میں رکھا گیا تھا وہ کراچی سينٹرل جيل کے پھانسی گھاٹ سے خاصی مماثلت رکھنے کے ساتھ ساتھ بالکل ویران تھی۔ اس وقت وہاں تعینات جيلر نے مجھے بتایا کہ 'فوجی حکام' کی ہدایت کے مطابق مياں نواز شريف کو يہ بتا ديا گیا ہے کہ ان کی بيرک کے سامنے جو ويران جگہ ہے وہ دراصل پھانسی گھاٹ ہے۔
يہ نواز شريف پر ذہنی دباؤ کا پہلا حربہ تھا کيونکہ حکام کو معلوم ہوگيا تھا کہ نواز شريف طويل قيد تنہائی سے گھبرا کر جيل سے نکنا چاہتے ہيں۔ ہائی جيکنگ کے مقدمے میں سزا کے بعد انہيں خدشہ تھا کہ کہیں جنرل مشرف کے ہاتھوں ان کا انجام بھی وہی نہ ہو جو جنرل ضیا کے ہاتھوں ذوالفقارعلی بھٹو کا ہوا تھا۔
آخر کار بيگم کلثوم نواز مرحومہ کی اپنے شوہر کو بچانے کے لیے دن رات کی جانے والی کوششيں بارآور ثابت ہوئيں اور سعودی شاہ عبدللہ نے پاکستان کی فوجی قیادت پر دباؤ ڈال کر پورے شريف خاندان کو ايک تحريری معاہدے کے تحت سعودی عرب بلا لیا۔ نواز شریف 425 دن جیل کاٹنے کے بعد اپنے بھائی اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ دسمبر 2000ء میں جلا وطن ہو گئے۔ عمران خان کی طرح نواز شريف کے کئی پرانے ساتھی بھی اس موقع پر انہيں چھوڑ گئے تھے۔ چوہدری برادران نے اختلافات کے باوجود، بيگم کلثوم نواز کی ہر طرح سے مدد کی مگر نواز شريف کی رہائی اور ان کے لیے آواز بلند کرنے کا سارا کريڈٹ بيگم کلثوم نواز مرحومہ جيسی برد بار اور تحمل مزاج خاتون کو جاتا ہے۔
آج وقت بدل چکا ہے، کردار بدل چکے ہیں لیکن کہانی پرانی ہی لگتی ہے۔ سابق وزير اعظم عمران خان، مخدوم شاہ محمود قريشی اور تحريک انصاف کے ديگر رہنما، ظلم جبر اور نا انصافی کی شکایت کر رہے ہيں۔ تاہم انہیں ایسا کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں آمروں کے ادوار کا جائزہ ضرور لينا چاہيے۔ مثال کے طور پر ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں لاہور کے شاہی قلعے کے زير زمين اندھيرے کمروں ميں سيا سی قيدی رہنماؤں کو کيسے کئی کئی ماہ قيد رکھ کر تفتيش کی جاتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شريف اور ان کے بھائی شہباز شریف بھی لاہور کے قلعے ميں قائم عقوبت خانے کے 'شاہی مہمان‘ رہ چکے ہیں۔
جب عمران خان کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے، ان دنوں مخدوم شاہ محمود قريشی اپنے والد مخدوم سجاد حسين قريشی مرحوم کے زير سایہ سياسی کھلاڑی بننے کی تربيت پارہے تھے۔ سجاد قریشی فوجی حکمران جنرل ضياء کے دور ميں پنجاب کے گورنر رہے تھے۔
عمران خان کے حاميوں کے بقول وہ ایک سيدھے سادھے سے سچے مسلمان ہيں۔ وہ سياست کی چالوں اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلق کو نبھانے ميں شايد اتنی مہارت نہ رکھتے ہوں جتنی کہ شاہ محمود قريشی کو ہے۔ ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ ''شاہ جی" ايک منصوبے کے تحت عمران خان کو فوج سے ٹکراؤ کی طرف لے کر گئے اور اس میں کچھ عمل دخل خان صاحب کے مزاج کا بھی ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں دسمبر 2018 میں نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل بھیجا گیا تھا۔ مگر اس مرتبہ نومبر 2019ء میں نواز شریف ناسازی طبع کا کہہ کر علاج کرانے کے لیے لندن جا پہنچے۔ لندن جانے کے بعد نواز شریف کی جو تصاویر سامنے آئیں، ان میں وہ کافی ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے۔
ملک کی سياسی تاريخ ميں جيل کا ذکر سابق صدر آصف علی زرداری کے بغير مکمل نہيں ہوتا۔ انہوں نے گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزارے ہیں۔ انہیں ان کی سیاسی زندگی میں کئی بار رہا اور گرفتار کیا گیا۔ 2019ء میں آخری مرتبہ انہوں نے چھ ماہ اڈیالہ جیل میں گزارے۔ ميں نے مشکل سے مشکل ادوار ميں انہيں جيل ميں نہايت قريب سے ديکھا ہے۔ اپنے تجربے اور معلومات کی روشنی ميں يہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آصف زرداری کو جيل کاٹنے کا حوصلہ اور سليقہ آتا ہے۔
سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ یہ کسی کا ساتھ نہیں دیتی اور لمحے بھر میں ایک با اثر سیاست دان جیل کی کوٹھری میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہی لوگ جو کبھی انہیں سلیوٹ مارتے تھکتے نہیں تھے اقتدار ختم ہونے کے بعد وہی ان پر ڈنڈے برسانے میں دیر نہیں کرتے۔ کہا جاتا ہے نا کہ اگر سیاست دان سلاخوں کے پیچھے کچھ وقت نہ گزار لے وہ سیاسی میدان کا کندن نہیں بن پاتا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔