1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حافظ سعید کی نظر بندی میں توسیع کی درخواست مسترد

عبدالستار، اسلام آباد
22 نومبر 2017

پاکستان کی ایک عدالت نے اپنے گھر پر نظر بند جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی نظر بندی میں توسیع کی پنجاب حکومت کی ایک درخواست مسترد کر دی ہے۔ حافظ سعید کے وکیل کے مطابق ان کے مؤکل اب ایک آزاد شہری ہیں۔

https://p.dw.com/p/2o4eb
جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید، جو ملی مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی قائم کر چکے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

حافظ سعید کے وکیل اے کے ڈوگر نے اس حوالے سے بدھ بائیس نومبر کو ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’حافظ سعید اب ایک آزاد شہری ہیں اور قانون کے مطابق اب ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ حکومت کو فوری طور پر ان کے گھر سے پولیس اہلکاروں کو ہٹاتے ہوئے ان کی نظر بندی ختم کرنا چاہیے، ورنہ ہم توہین عدالت کی درخواست جمع کرا دیں گے۔‘‘

اے کے ڈوگر نے کہا کہ جب نظر بندی صوبائی حکومت کے حکم پر ہو، تو صوبائی نظر ثانی بورڈ، جس میں ہائی کورٹ کے جج صاحبان بھی ہوتے ہیں، حکومت سے نظر بندی میں توسیع کی وجوہات مانگتا ہے۔ ’’لیکن صوبائی حکومت کوئی ٹھوس دلیل نہ دے سکی۔ اس لیے بورڈ نے حکومت پنجاب کی اس درخواست کو رد کر دیا ہے کہ حافظ سعید کی نظر بندی میں توسیع کی جائے۔ قانونی طور پر اب حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ فوری طور پر اس نظر بندی کو ختم کرے اور بورڈ کے فیصلے پر عمل درآمد کرے۔‘‘

حافظ سعید کی نظر بندی میں توسیع کی حکومتی درخواست واپس

پاکستانی الیکشن کمیشن کا ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن سے انکار

’پاکستانی سیاست میں ملی مسلم لیگ کی کوئی اہمیت نہیں‘

کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس نظر بندی کے خاتمے کے بعد پاکستان کو بیرونی دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر خالد جاوید جان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پاکستانی پالیسی پر بین الاقوامی برادری کے پہلے ہی تحفظات ہیں۔ ہم پر پہلے ہی یہ الزام بھی ہے کہ ہم مختلف جہادی گروپوں کی سر پرستی کر رہے ہیں۔ اب اس فیصلے سے حکومتی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بھارت اور امریکا اس مسئلے کو اچھال سکتے ہیں اور اسلام آباد کو بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حافظ سعید کو بین الاقوامی برادری ایک دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ایسی کیا ایمرجنسی تھی کہ ان کی نظر بندی کو ختم کر دیا جائے۔‘‘

Pakistan Demonstration in Lahore 22. Dez 2013
حافظ سعید، بائیں، پاکستان کے ایک امریکا مخالف مذہبی سیاسی رہنما مولانا سمیع الحق کے ہمراہتصویر: picture-alliance/AP Photo

خالد جاوید جان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے سے لوگ پاکستان کے اس دعوے پر بھی شبہ کر یں گے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اب امکان ہے کہ حافظ سعید اپنی سیاسی جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ اس سے دنیا میں یہ تاثر جائے گا کہ بین الاقوامی برادری کو مطلوب ایک شخص کھلے عام گھوم رہا ہے۔ اس سے پاکستان کے ان دعووں پر بھی سوالات اٹھیں گے، جو وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے کردار کے حوالے سے کرتا ہے۔‘‘

پاکستان: 72 کالعدم تنظیموں کی میڈیا کوریج پر پابندی

’ملی مسلم لیگ پر پابندی کا مطالبہ‘

حافظ سعید کی نظر بندی کے خلاف پاکستان میں احتجاجی مظاہرے

ڈاکٹر جان کے مطابق ایسا محسو س ہو رہا ہے کہ مذہبی جماعتوں کو بھر پور سیاسی جگہ دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ان کے بقول، ’’حافظ سعید کی جماعت نے لاہور کے گزشتہ ضمنی انتخاب میں ہزاروں ووٹ حاصل کیے تھے اور اب ان کی نظر بندی ختم ہونے سے یہ لگ رہا ہے کہ قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہبی تنظیموں کو آگے لایا جا رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے ان تنظیموں کا کوئی وسیع تر اتحاد بنا دیا جائے اور قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کو چھوتا کر دیا جائے۔‘‘

اس بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے صنعت و پیداوار آیت اللہ درانی کے خیال میں پاکستان کو اس سلسلے میں کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر حافظ سعید کو عدالتوں نے رہا کیا ہے یا ان کی نظر بندی ختم کی ہے، تو اس پر کسی بھی ملک کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ بالکل اسی طرح اگر حافظ سعید قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاست کرتے ہیں، تو انہیں اس کا پورا حق ہونا چاہیے۔ امریکا یا بھارت کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی پاکستانی عدالت یا عدالتی نظر ثانی بورڈ کے کسی فیصلے پر کوئی شور مچائیں۔‘‘

لاہور ضمنی انتخاب، ایک امیدوار کا تعلق ’دہشت گرد تنظیم‘ سے