حقانی نیٹ ورک کے لیے افغانستان میں دراندازی مشکل کر دی گئی، مولن
1 اگست 2011ایڈمرل مولن نے یہ بات افغانستان کے مشرقی سرحدی علاقوں کے دورے کے بعد دارالحکومت کابل میں ایک پریس کانفرنس کے موقع پر کہی۔ امریکی فوجی عہدیدار کا کہنا تھا کہ مستحکم افغانستان اور مستحکم پاکستان کے لیے دہشت گردوں کے یہ محفوظ ٹھکانے ختم کرنا ضروری ہیں۔ مولن کا کہنا تھا کہ سرحدی علاقوں میں افغان اور اتحادی فورسز کا اصل مقصد یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی پاکستان سے خوست کے راستے کابل تک پہنچ کو مشکل تر کردیا جا ئے۔ مولن کے بقول، ’’ اور اب یہ بہت مشکل ہے۔‘‘
پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر شک کیا جاتا ہے کہ 80ء کی دہائی سے اس کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ گہرے مراسم قائم ہیں۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات میں حالیہ سردمہری کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے۔
امریکی عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن اب بھی اسلام آباد پر مسلسل دباؤ قائم رکھے ہوئے کہ اپنی سرحدوں کے اندر موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرے، ’’ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہمارے اہداف کے حصول کی راہ میں بڑی اور مرکزی رکاوٹ ہے۔‘‘ مائیک مولن نے حالیہ دنوں میں جنوبی افغانستان میں بدامنی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
مولن کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران افغانستان میں مجموعی طور پر امن وامان کی صورتحال میں ڈرامائی بہتری دیکھنے میں آئی ہے تاہم حالیہ واقعات باعث تشویش ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان کے جنوبی علاقوں میں گزشتہ ماہ کے دوران صدر حامد کرزئی کے قریبی ساتھیوں سمیت درجنوں افراد کو ہدف بناکر ہلاک کیا جاچکا ہے۔
قندھار، ہلمند اور اروزگان صوبوں میں دہشت گردی کے ان واقعات نے افغان سکیورٹی اداروں کی صلاحیت سے متعلق سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ مولن کا کہنا تھا کہ طالبان کو بہت بڑی ناکامی کا سامنا ہے اور وہ بدلے کا عزم کرکے اس قسم کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ سلامتی سے متعلق اب بھی اہم امتحان موجود ہیں، تشدد کی تازہ لہر سے تشویش ابھری ہے مگر میں اس پر حیرت زدہ نہیں۔‘‘
امریکی فوجی عہدیدار افغانستان کا دو روزہ دورہ مکمل کرکے امریکہ چلے گئے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: شامل شمس