حقانی گروپ افغان امن مکالمت میں مشروط شرکت پر آمادہ
17 ستمبر 2011عسکری گروہ حقانی گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی نے ہفتے کے روز خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کابل حکومت اور امریکہ کے زیر اہتمام امن مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں تاہم وہ ایسا اسی وقت کریں گے جب طالبان بھی ان مذاکرات میں شرکت کی حامی بھریں۔ سراج الدین حقانی نے روئٹرز کو یہ انٹرویو ایک نامعلوم مقام سے بذریعہ ٹیلی فون دیا۔
پاکستان میں شمالی وزیرستان کے علاقے میں موجود حقانی گروپ کو امریکہ اور نیٹو افغانستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سبب قرار دیتے ہیں۔ امریکہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ وہ حقانی گروپ کے خلاف فوجی کارروائی کرے تاہم پاکستانی حکومت نے مبینہ طور پر اب تک ایسا کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ سراج الدین حقانی کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت کی جانب سے ان کو اہم عہدوں کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیا۔
عسکری امور کے ماہرین، بالخصوص طالبان کے حوالے سے تجزیہ کرنے والے ماہرین کے مطابق حقانی گروپ طالبان کے رہنما ملا عمر کی کمانڈ میں ہی آتا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقانی گروپ آزادانہ طور پر بھی کارروائیاں کرتا ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے حقانی کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر رکھی گئی ہے۔
سراج الدین حقانی نے اپنے گروپ کے مزید مضبوط ہونے کے حوالے سے بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حقانی گروپ کے نہ صرف یہ کہ پاکستان میں ٹھکانے ہیں بلکہ وہ افغانستان میں بھی اپنے ٹھکانے بنا چکا ہے۔ اس ضمن میں سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ مشرقی افغانستان میں ان کا گروپ مضبوط ہو رہا ہے۔
پاکستانی مبصر اعجاز حیدر کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں مشروط شرکت کی بات کرنا حقانی گروپ کی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیتا ہے۔ اعجاز حیدر کا کہنا تھا، ’’سراج الدین حقانی کا بیان امریکہ کے لیے ایک اشارہ ہے کہ اگر امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو وہ بھی اس میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
مبصرین کے مطابق پاکستان بھی حقانی گروپ اور امریکہ کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ امریکہ کے مقتدر حلقوں میں اس بات پر کم و بیش اتفاق پایا جاتا ہے کہ حقانی گروپ کو پاکستانی حکومت، بالخصوص آئی ایس آئی کی پشت پناہی حاصل ہے اور پاکستان اس گروپ کے ذریعے مغربی ممالک سے اپنے مطالبات منوانا چاہتا ہے تاکہ نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد افغانستان میں اس کے مفادات کو زک نہ پہنچے۔ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ اسی باعث پاکستانی حکومت شمالی وزیرستان میں آپریشن سے گریز کرتی ہے۔ اسلام آباد حقانی گروپ کے ساتھ روابط کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک