1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین دشمن روایات، پاکستان میں نئی قانون سازی پر ردعمل

16 نومبر 2011

پاکستان کی قومی اسمبلی میں خواتین دشمن روایات کے خلاف پیر کی شام منظور کیے گئے قانون پر ملک کے سیاسی، قانونی حلقوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے آج ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/13BWl
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

قومی اسمبلی میں پیر کی شام اتفاق رائے سے منظور کیے گئے اس قانون کے تحت خواتین کو ونی، سوارہ، بدل، صلح، جبری یا قرآن سے شادی پر مجبور کرنے والے کسی بھی فرد کو دس سال تک قید اور دس لاکھ روپے تک کا جرمانہ کیا جا سکے گا۔ قانون کے تحت یہ جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے۔ حکومتی اراکین اس قانون کی منظوری کو ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی افضل سندھو کا کہنا ہے کہ جن فرسودہ رسومات کے خلاف یہ قانون منظور کیا گیا ہے، وہ قومی کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے لیے بدنامی کا سبب تھیں۔ انہوں نے کہا، ‘‘خواتین کے حقوق ہمارے ملک میں ایک نہیں بہت سے طریقوں سے پامال کیے جاتے ہیں۔ آج کے مہذب معاشرے اور دور میں اس قسم کی جو بہیمانہ حرکتیں ہوتی ہیں، ونی کی، کاروکاری کی، وہ ملک کی بدنامی کا باعث ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے لیے جو بھی بل آئے گا، میں اس کی حمایت کروں گا۔’’

Pakistanisches Parlament
تصویر: AP

اس نئے قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دھوکہ دہی اور غیر قانونی طریقے سے کسی خاتون کو وراثت سے محروم کرنے والے کسی بھی فرد کو زیادہ سے زیادہ دس سال اور کم از کم پانچ سال تک قید یا دس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں سنائی جا سکیں گی۔

تاہم حکومتی رکن پارلیمان اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے اس بل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس میں بہت سے قانونی نقائص واضح طور پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘‘جب کبھی کوئی فراڈ ہو، تو معاملہ سول عدالت میں جاتا ہے۔ تو کوئی ایسی قانون سازی جو ملک کے بنیادی قانون سے متصادم ہو، وہ قانون سازی بے معنی ہو جاتی ہے۔ محض اس لیے کہ آپ کو کوئی کریڈٹ مل جائے۔ آپ دھڑا دھڑ قانون سازی نہ کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی ترقی نسواں کی کمیٹی ہے اور ایک کمیٹی قانون و انصاف کی بھی، جس میں بہت قابل لوگ بیٹھے ہیں۔ ہائی کورٹ کے دو سابق جج ہیں اس کمیٹی میں۔ بل کا مسودہ بھیجا ہی نہیں جاتا اور دو چار ڈرافٹسمین اس کو قابو کر لیتے ہیں اور وہ نقائص سے بھرا ہوا قانون بنا دیتے ہیں۔’’

NO FLASH Demonstration in Pakistan
پاکستان میں خواتین اب سیاسی زندگی میں زیادہ حصہ لینے لگی ہیںتصویر: AP

پاکستان مسلم لیگ (ق) کی رکن اسمبلی رفعت اورکزئی نے بل کی منظوری کو تاریخی اقدام قرار دیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ اس قانون کے مؤثر نفاذ کا ہے۔ ‘‘بل پاس کرنے کا کیا فائدہ، اگر اس کا نفاذ ہی نہ ہو۔ ہم نے تیزاب پھینکنے کے خلاف بل پاس کیا ہوا ہے۔ پھر بھی لوگ تیزاب پھینکے جا رہے ہیں۔ کس کو پکڑ لیا، کس کو سزا دے دی، اب وقت آ گیا ہے کہ آپ کو اگر سچے معنوں میں معاشرہ صاف کرنا ہے، تو آپ کو سزائیں دینا پڑیں گی۔ کیونکہ سزا کے ڈر سے انسان خوفزدہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ میں یہ بھی کر لوں گا، وہ بھی کر لوں گا، اور پیچھے سے ایک فون کرواؤں گا اور پھر باہر آ جاؤں گا۔’’

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرگرم کارکن، ڈاکٹر فرزانہ کا کہنا ہے کہ مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں اس طرح کا قانوں منظور ہونا بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قانون میں مزید بہتری بھی لائی جا سکتی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں