خواتین کے لیے چہرہ چھپانا شرعاﹰ لازمی نہیں، پاکستانی علماء
20 اکتوبر 2015پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے منگل بیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی علماء کی اس قدامت پسند کونسل کی طرف سے دیے جانے والے اس بیان کو انسانی حقوق کی تنظیموں اور حقوق نسواں کے کارکنوں نے ’حوصلہ افزا‘ قرار دیا ہے۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل یا CII کا قیام 1962ء میں عمل میں آیا تھا اور اس ادارے کا بنیادی کام ملکی پارلیمان کی مشاورت ہے تاکہ مقننہ کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی کے اسلامی شرعی قوانین سے ہم آہنگ ہونے کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کونسل نے خواتین کی طرف سے پردہ کرنے کے بارے میں شرعی تقاضوں سے متعلق اپنے ایک فیصلے کا اعلان کل پیر کے روز ہونے والے ایک اجلاس کے بعد کیا تھا۔
اسلام آباد میں اس پاکستانی ادارے کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ کونسل کے مطابق شرعی طور پر خواتین کے لیے اپنے چہرے یا ہاتھ پاؤں کو ڈھانپنا لازمی تو نہیں لیکن کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی نے خواتین کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ ’اخلاقی ضابطوں کی پاسداری کرتے ہوئے معاشرے میں محتاط رویے کا مظاہرہ کریں‘۔ ساتھ ہی کونسل کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ مولانا شیرانی نے خواتین کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ وہ ’خطرات سے بچنے کے لیے اپنے اعضاء کو ڈھانپ کر رکھیں‘۔
اسلامی نظریاتی کونسل عام طور پر ایسے فیصلے اور ان کا اعلان شاذ و نادر ہی کرتی ہے۔ اس ادارے کے اس تازہ ترین فیصلے پر اپنے ردعمل میں خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن فرزانہ باری نے اسے ’بہت دلچسپ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ ایک اچھا اشارہ ہے۔ مذہبی شخصیات نے بظاہر یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ اس وقت ان کے درست اور جائز ہونے کو ایک چیلنج کا سامنا ہے اور یہ فتویٰ اسی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش ہے۔‘‘
فرزانہ باری کے مطابق، ’’اگر توہین مذہب سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آرتھوڈوکس مذہبی رہنما تھوڑا سا پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سے چند مذہبی شخصیات کو تو یہاں تک حوصلہ بھی ملا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ قوانین میں ترامیم کی جانا چاہییں۔‘‘
قریب 200 ملین کی آبادی والے مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی نازک معاملہ ہے اور یہ حقیقیت اس بات سے بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر کسی پر توہین مذہب کا الزام ہی لگا دیا جائے اور یہ الزام ثابت بھی نہ ہوا ہو، تو بھی مشتعل عوامی ہجوم فوراﹰ ہی پرتشدد حملوں اور لوگوں کو ہلاک کرنے پر اتر آتے ہیں۔
پاکستانی سپریم کورٹ نے ابھی اسی مہینے ہی پنجاب کو گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی ایک اپیل کی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا تھا کہ ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت برقرار رکھی جائے۔ قادری نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا تھا کہ وہ توہین مذہب سے متعلق متنازعہ ملکی قانون میں ترمیم کے حامی تھے۔ اس عدالتی فیصلے کو اعتدال پسند پاکستانیوں نے تاریخی قرار دے کر اس کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا یہ حکم مذہبی انتہا پسندی کی سوچ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اس تازہ فیصلے کے برعکس ماضی میں اس ادارے نے اپنی طرف سے جو فتوے دیے تھے، ان پر زیادہ تر شدید تنقید ہی کی گئی تھی۔ پاکستانی حکومت قانوناﹰ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہے۔
گزشتہ برس اسی کونسل نے اپنے ایک فیصلے میں بچوں کی کم عمری میں شادیوں پر پابندی کے ملکی قانون کو اسلامی احکامات سے متصادم قرار دے دیا تھا اور حکومت سے مطابہ کیا تھا کہ وہ اس قانون میں ترمیم کرے۔ اس پر انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں اور کارکنوں کی طرف سے اس کونسل کی شدید مذمت کی گئی تھی۔