خود کشی کے مقبول انداز سے حکام پریشان
1 مئی 2010ہانگ کانگ میں اب اس رجحان پر قابو پانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بارہ سال قبل نومبر کے مہینے میں جس مقامی خاتون نے خود کشی کے اپنے مختلف انداز کے ساتھ اس رجحان کی طرح ڈالی تھی، اس نے اپنے گھر کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے کوئلوں کے ایک ڈھیر کو آگ لگا دی تھی، اور پھر ان جلتے ہوئے کوئلوں سے خارج ہونے والی زہریلی کاربن مونو آکسائیڈ گیس میں سانس لیتے لیتے یہ خاتون ابدی نیند سو گئی تھی۔
اس واقعے کی تفصیلات جب ہانگ کانگ کے کثیر الاشاعت اخباروں میں شائع ہوئی تھیں، تو اپنی زندگیوں سے تنگ بہت سے مقامی شہری اپنی جان لینے کے لئے یہی طریقہ اختیار کرنے لگے تھے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ہانگ کانگ اپنی زندگیوں سے بیزار انسانوں کی طرف سے خود کشی کے لئے استعمال ہونے والے اس طریقے کی روک تھام اور عام شہریوں کو اپنی ہی جان لینے سے روکنے کے لئے مختلف طرح سے کوششیں کر رہا ہے۔ ہانگ کانگ سے شروع ہونے والا یہ رجحان گزشتہ بارہ برسوں کے دوران ہزارہا انسانوں کی موت کا سبب بن چکا ہے۔ یہی نہیں اس انداز خود کشی کو بعد میں اتنی زیادہ ترجیح دی جانے لگی کہ 2007 میں تو اس طرح خودکشی کرنا تائیوان کے دارالحکومت تائی پے میں انسانوں کی خود اپنے ہاتھوں ہلاکت کے واقعات کی سب سے زیادہ نظر آنے والی صورت بن چکا تھا۔
اسی رجحان سے متاثر ہو کر روک موسیقی کے مشہور امریکی بینڈ بوسٹن کے مرکزی گلوکار نے بھی نیو ہیمپشائیر میں اپنے گھر میں کوئلے جلا کر اور پھر دوران نیند زہریلی کاربن مونو آکسائیڈ گیس میں سانس لے کر خود کشی کی تھی۔
ہانگ کانگ کے دو بڑے کاروباری اور رہائشی اضلاع میں اب مقامی حکومت کے تعاون سے کاروباری شعبے کے ایک سال تک جاری رہنے والے تجربے کے بعد اس مسئلے کا ایک جزوی حل تلاش کر لیا گیا ہے۔ ہانگ کانگ کی کئی سپر مارکیٹوں میں اب گاہک باربی کیو میں استعمال ہونے والے کوئلے ہر وقت نہیں خرید سکتے۔
اس کے لئے خریداری کے وقت، کوئلوں کی مقدار اور خریدار کی شخصیت کےعلاوہ اس کی ظاہری ذہنی حالت بھی مد نظر رکھی جاتی ہے۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ کہلانے والے اور سابقہ برطانوی نوآبادی ہانگ کانگ میں تجارتی شعبے کے ان اقدامات کا اب تک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں خود کشی کے واقعات اور اقدام خود کشی کی شرح میں قدرے کمی آ چکی ہے۔
ہانگ کانگ میں آج بھی سالانہ قریب ایک ہزار شہری خود کشی کر لیتے ہیں اور ان میں کوئلوں کے زہریلی دھوئیں کے ذریعے خود کشی کرنے والوں کی موجود سالانہ اوسط 130 اور 140 کے درمیان بنتی ہے۔ یہ شرح ابھی بھی پریشان کن ہے لیکن اس میں کمی اس لئے حوصلہ افزا ہے کہ ہانگ کانگ میں چند سال پہلے تک بند کمرے میں کوئلوں کے دھوئیں میں سانس لے کر خود کشی کرنے والوں کی اوسط سالانہ تعداد 250 سے بھی زیادہ رہتی تھی۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک