خونی واقعات سے عبارت مقدس مہینہ رمضان ختم ہو گیا
6 جولائی 2016پیر اور منگل کے کے روز دنیا بھر کے مسلمانوں نے عیدالفطر کا مذہبی تہوار رمضان کے روزے ختم کرنے پر روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منایا۔ کئی مقامات اور گھر ایسے بھی تھے جہاں ایک طرح سے ماتمی عید منائی گئی۔ مسلمانوں میں مقدس خیال کیے جانے والے اِس مہینے کے دوران ہونے والے کئی ملکوں میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات میں350 سے زائد انسانی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔
ان ہلاکتوں کا سبب انتہا پسند جہادیوں کی پرتشدد کارروائیاں تھیں۔ ان میں ایک دہشت گردانہ حملہ اسلام کے قلب میں وار کے طور پر لیا گیا ہے۔ یہ خود کش حملہ پیر چار جولائی کو مدینہ میں واقع مسجدِ نبوی کے پارکنگ ایریا میں کیا گیا تھا۔ دوسری جانب تمام مسلمانوں کے علما ان حملہ آوروں کے اقدامات کو اسلام کے منافی خیال کرتے ہیں۔
رمضان ہی میں عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے عراقی فوج کے سامنے پسپائی اختیار کرتے ہوئے فلوجہ شہر کو خالی کر دیا تھا۔ اسی تناظر میں لندن کے ایک تھنک ٹینک سے وابستہ جہادی کلچر کے ماہر فواز غرغیز کا کہنا ہے کہ اِس وقت ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے اور اِس جہادی گروپ کا مستقبل واضح ہو چکا ہے۔ غرغیز کے مطابق یہ گروپ بڑی مہم جوئی کا اب متحمل نہیں ہو سکتا اور محدود کارروائیوں سے مسلم دنیا کے نوجوانوں کو متاثر کرنے کی کوشش میں ہے۔
مختلف ملکوں میں جہاں مسلمان ایک طرف روزے کی حالت میں عبادات کی ادائیگی میں مشغول تھے وہیں انتہا پسندوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے منہ نہیں موڑا اور کئی خونی حملوں میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ ایسے پرتشدد حملے افغانستان، بنگلہ دیش، عراق اور شام میں دیکھے گئے۔ ان حملوں سے بنیاد پرست مسلمان اور اُن کے علماء نام نہاد جہادی سرگرمیوں میں شریک ہو کر دوسرے مسلمانوں کی ہلاکت کو فتح سے تعبیر بھی کرتے رہے۔ رمضان کے شروع ہونے سے قبل ہی ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ ہتھیار اٹھا کر جہادی کارروائیوں کا حصہ بن جائیں۔
امریکی شہر اورلینڈو میں افغان نژاد عمر متین نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا دم بھرتے ہوئے 49 انسانی جانیں ختم کر دیں تھیں۔ استنبول کے انٹرنیششنل ہوائی اڈے پر تین جہادیوں نے 44 بےگناہوں کا خون بہا دیا۔ بنگلہ دیشی دارالحکومت کے ایک کیفے میں انتہا پسندوں نے بائیس افراد موت کے منہ میں دھکیل دیے۔ ڈھاکا حکومت انکار کرتی ہے مگر اسلامک اسٹیٹ نے اِس خونی کارروائی کو اپنے کھاتے میں ڈال لیا ہے۔
عراق کے دارالحکومت کے فیشن ایبل کاروباری مرکز الکرادہ میں 175 کے قریب افراد کار بم حملے میں صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ الکرادہ کی تباہی کو دیکھ کر وہاں کے شہریوں نے اِس کو ہیروشیما اور ناگاساکی جتنی بڑی تو نہیں لیکن اُس سے مماثلت رکھتی کارروائی قرار دیا تھا۔
اسی طرح یمن کے بندرگاہی شہر المکلا میں افطار کے وقت کیے گئے خود کش حملے میں 43 فوجیوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اب ایسے خود کش حملے شہروں سے ہوتے ہوئے مسلمانوں کے انتہائی متبرک مقام کی دہلیز تک پہنچ گئے ہیں۔ چار جولائی کو مسجدِ نبوی کے باہر کیے گئے خود کش حملے میں چار سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔
لبنانی دارالحکومت بیروت کے معروف سیاسی ریسرچر ابراہیم بیرام کا خیال ہے کہ یہ تصور غلط ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مکمل خاتمے کے دن قریب آ چکے ہیں۔