خیبر ایجنسی: پابندی کے بعد منشیات کے کاروبار میں جدت
18 اگست 2016منشیات کا یہ کاروبار زیادہ تر خیبر ایجنسی کے راستے کیا جاتا ہے۔ ایک جانب اگر انتظامیہ نے گزشتہ تین برسوں سے خیبر ایجنسی میں ہر قسم کی منشیات کے کاروبار پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے تو دوسری جانب جدید دور کی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منشیات فروشوں نے اپنے کاروبار کے لیے سوشل میڈیا کو بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
پشاور کے قدرے مہنگے سمجھے جانے والے رہائشی علاقے یونیورسٹی ٹاؤن کے ایک نوجوان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے خیبر ایجنسی میں منشیات کے کاروبار پر پابندی کے باعث اب منشیات کھلے عام تو فروخت نہیں ہو رہیں تاہم بہت سے افراد اپنے گھروں اور حجروں سے یہ کاروبار ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پشاور کے اس شہری نے بتایا، ’’بعض منشیات فروش قانون کی نظر میں آنے سے بچنے کے لیے موبائل فون، وٹس ایپ جیسی اسمارٹ فون ایپلیکیشن یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا سہارا لیتے ہیں۔ میں خود گزشتہ آٹھ سال سے چرس پیتا ہوﺍ، لیکن اب حالات کافی بدل گئے ہیں۔ سکیورٹی حکام کی سختی کی وجہ سے اب کارخانو مارکیٹ یا جمرود میں منشیات بہت مشکل سے ملتی ہیں تاہم کئی منشیات فروشوں نے اپنے کاروبار کے لیے متعدد متبادل راستے بھی تلاش کر لیے ہیں۔‘‘
اس پاکستانی نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ قریب ایک مہینے سے اپنے فون پر وٹس ایپ کے ذریعے ایک ایسے گروپ کا حصہ ہے، جہاں وہ آسانی سے منشیات کے ڈیلر سے رابطہ کر سکتا ہے۔ اس نوجوان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میں صرف اپنے ذاتی استعمال کے لیے چرس خریدتا ہوں۔ اس کے لیے چند گھنٹے پہلے ایک پیغام کے ذریعے ڈیلر کو مطلوبہ مقدار اور جگہ سے مطلع کر دیا جاتا ہے۔‘‘
اس بارے میں خیبر ایجنسی میں کارخانو چیک پوسٹ کے انچارج، کمانڈر اتحاد آفریدی کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں منشیات کے اس قسم کے کاروبار کا علم نہیں ہے، تاہم خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ کے احکامات کے مطابق منشیات کا کاروبار ایک سنگین جرم ہے۔ ان کے مطابق صرف کارخانو مارکیٹ میں منشیات فروشی کی قریب پانچ سو دکانیں تھیں، جنہیں بند کرایا جا چکا ہے۔
اتحاد آفریدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمیں ہدایات دی گئی ہیں کہ کسی بھی مارکیٹ میں یا دکاندار کے پاس اگر کسی بھی قسم کی منشیات پائی جائیں تو متعلقہ افراد کو 30 لاکھ روپے تک جرمانہ کرنے کے علاوہ اس دکان یا مارکیٹ کو بھی مسمار کر دیا جائے۔‘‘
اتحاد آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ چرس، ہیروئن اور الکوحل جیسی منشیات پر اس علاقے میں مکمل پابندی ہے، لیکن ’آئس‘ یا ’کرسٹل‘ جیسا انتہائی خطرناک نشہ وہاں پشاور سے پہنچ رہا ہے، جس کی فوری روک تھام کی اشد ضرورت ہے۔
خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود کے رہائشی محمد امین کی بھی کارخانو مارکیٹ میں منشیات کی ایک دکان تھی، جس کی حکومتی سختی کے نتیجے میں بندش کے بعد امین اب اپنا ایک کریانہ سٹور چلا رہا ہے۔ محمد امین نے کہا، ’’پہلے اس علاقے میں ہم آزادی سے منشیات کا کاروبار کر سکتے تھے۔ اب لوگ بہت ڈرتے ہیں۔ حکومت نے منشیات فروشی کی سزائیں بہت سخت کر رکھی ہیں۔‘‘
منشیات کے اسی کاروبار کے سلسلے میں خیبر ایجنسی کے ایک اور رہائشی، پچیس سالہ عنایت اللہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی میں جدت آ چکی ہے۔ زیادہ تر لوگ اسمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں۔ ’’وٹس ایپ یا کسی دوسری موبائل فون ایپلیکیشن کے ذریعے منشیات کا کاروبار نیا لیکن کافی حد تک قابل فہم ہے۔ منشیات فروش اپنے لیے قانون سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔‘‘