داعش کی نظریں اب وسطی ایشیائی جمہوریاؤں پر بھی
30 مارچ 2016وسطی ایشیائی ریاستوں کے ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا ایک بےمثال واقعہ تھا کہ مارچ کے وسط میں وسطی ایشیائی جمہوریہ تاجکستان کی فوج اور اس کے ریزرو فوجیوں پر مشتمل قریب 45 ہزار دستوں نے بھاری جنگی ہتھیاروں کے ساتھ اور قریب دو ہزار روسی فوجیوں کے ساتھ مل کر ایسی بڑی جنگی مشقیں کیں، جن کا مقصد بیرون ملک سے آنے والے دہشت گرد عناصر کے خلاف دفاع کو مضبوط بنانا تھا۔
ان فوجی مشقوں کا آخری حصہ سابق سوویت جمہوریہ تاجکستان کے شمال میں ایک ایسے علاقے میں مکمل کیا گیا، جو افغستان کے ساتھ سرحد سے صرف 15 کلومیٹر دور تھا۔ اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے لیے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں رومان گونچارینکو اور ویٹالی فولکوف لکھتے ہیں کہ ان فوجی مشقوں کی تکمیل کے لیے شمالی تاجکستان میں افغان سرحد کے بہت قریبی علاقے کے انتخاب کا مقصد سرحد پار افغان طالبان اور داعش یا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کو ایک واضح تنبیہی پیغام دینا تھا۔
روس کئی مہینوں سے بڑی تشویش کے ساتھ دیکھ رہا ہے کہ کس طرح عسکریت پسند تنظیم داعش کے جہادی خود کو وسطی ایشیا کے قریب لاتے جا رہے ہیں۔ یہ خطرہ اپنی جگہ موجود ہے کہ اس اسلام پسند گروہ کے شدت پسند افغانستان کو اپنے وسطی ایشیا میں داخلے اور وہاں قدم جمانے کی خاطر ’جمپنگ بورڈ‘ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
ان خطرات کی طرف روسی وزارت خارجہ نے اشارہ تو 2015 کے آخر میں ہی کر دیا تھا، جب ماسکو میں اس وزارت نے کہا تھا کہ وہ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان اور قزاقستان کو مجموعی طور پر ایسا علاقہ سمجھتی ہے، جہاں ماسکو کا اثر و رسوخ موجود ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ وفاق روس کو اپنے جنوب میں ایسے خطرات کا سامنا بھی ہے، جن کے تدارک کے لیے ’اجتماعی سلامتی کے معاہدے‘ کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ان ریاستوں کی فوجی مدد بھی کی جا رہی ہے۔
جہادیوں کی تعداد میں اضافہ
اس بارے میں کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ شام اور عراق میں داعش کی صفوں میں موجود وسطی ایشیائی ریاستوں سے آنے والے جہادیوں کی اصل تعداد کتنی ہے۔ نیو یارک میں قائم Soufan گروپ کے اندازوں کے مطابق گزشتہ برس دسمبر تک داعش کے جہادیوں کے طور پر شام اور عراق میں عسکری کارروائیوں میں شامل وسطی ایشیائی شدت پسندوں کی مجموعی تعداد 4700 کے قریب تھی۔ ان میں سے قریب 2400 روسی شہری تھے، جن کا تعلق زیادہ تر شمالی قفقاذ کی روسی جمہوریاؤں سے تھا۔
عسکری ماہرین کو تشویش اس بات پر ہے کہ شام اور عراق میں شمالی قفقاذ سے تعلق رکھنے والے ان جہادیوں کی تعداد صرف ایک سال کے اندر اندر بڑھ کر تین گنا ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ شام اور عراق میں داعش کی صفوں میں شامل ازبکستان اور کرغزستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جو ایک ہزار بنتی ہے۔ ان ایک ہزار میں سے 500 جہادیوں کا تعلق ازبکستان سے ہے اور باقی 500 کا کرغزستان سے۔ دیگر ذرائع تو ایسے جہادیوں کی تعداد اور بھی زیادہ بتاتے ہیں۔
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم فاؤنڈیشن برائے سائنس اور سیاست (SWP) کے ایک ماہر اُووے ہالباخ نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’سوویت یونین کے دور کے بعد کے علاقوں کو دیکھا جائے تو شمالی قفقاذ کے روسی خطوں میں داعش کی ممکنہ موجودگی اور اثر و رسوخ وسطی ایشیائی جمہوریاؤں میں اس عسکریت پسند گروپ کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔‘‘
اُووے ہالباخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس بات سے قطع نظر کہ کسی کو داعش کے لیے لڑنے والے روسی اور وسطی ایشیائی جنگجوؤں کی اصل تعداد کا علم ہے کہ نہیں، یہ بات درست ہے کہ ان جہادیوں کی مجموعی تعداد ان خطوں میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ بنتی ہے۔ لیکن ان جہادیوں کی یہی تعداد اس مقصد کے لیے عین کافی ہے کہ وہ شمالی قفقاذ میں روسی اور وسطی ایشیا میں وہاں کی ریاستوں کی سلامتی سے متعلق سیاست کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکے۔‘‘