مسلمانوں کو نشانہ بنانا دہشت گردوں کا ساتھ دینا ہے، اوباما
26 مارچ 2016اپنے ہفتہ وار خطاب میں امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ امریکی مسلمان ’’شدت پسندی کے خلاف امریکی جنگ میں ہمارے سب سے اہم حلیف ہیں۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’اسی لیے ہر اس کوشش کی مخالفت کرنا چاہیے جو کہ امریکی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے ہو۔ یہ امریکا کے لیے مسلمانوں کی خدمات کی نفی ہو گی۔‘‘
امریکی صدر کا کہنا تھا ہے کہ امریکا جن اقدار پر کھڑا ہے اور جس طرح کی مذہبی آزادی کا وہ داعی ہے اس کو ٹھیس نہیں پہنچنا چاہیے۔
’’یہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ وہ چاہتے بھی یہی ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کر دیں تاکہ وہ اپنی نفرت انگیز سرگرمیوں کے لیے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر سکیں۔‘‘
واضح رہے کہ منگل کے روز بیلجیم کے دارالحکومت میں کیے گئے دہشت گردانہ حملوں میں دو امریکیوں سمیت اکتیس افراد ہلاک اور تین سو کے قریب زخمی ہوئے تھے۔
’’کم از کم چودہ امریکی زخمی ہوئے ہیں۔ ہم ان کی اور تمام زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔‘‘
امریکی صدر کی جانب سے ان خیالات کا اظہار ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب ریپبلکن پارٹی کی صدارتی امیدواری کے خواہش مند سیاست دان مسلمانوں کو مجموعی طور پر دہشت گردی کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز نے برسلز میں ہونے والے حملوں کے بعد ایک متنازعہ بیان میں کہا کہ امریکا میں موجود مسلمانوں کے علاقوں کی نگرانی کرنا چاہیے۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس مطالبے کو دہرایا کہ امریکا آمد کے خواہش مند تمام مسلمانوں پر عارضی پابندی لگائی جائے۔
جہاں بعض قدامت پسند حلقے اس نوعیت کے بیانات کا خیر مقدم کر رہے ہیں وہاں امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد اس کی شدید مخالفت بھی کر رہی ہے۔