دس ہزار سے زائد مہاجر بچے لاپتہ، یورپی پولیس
31 جنوری 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کی آج اتوار 31 جنوری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق یوروپول نے باقاعدہ طور پر اس خطرے کا اظہار کیا ہے کہ یورپ بھر میں ’لاپتہ‘ ہو جانے والے ان دس ہزار سے زائد نابالغ تارکین وطن میں سے کئی بچے جنسی مقاصد کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔
اس پریشان کن امر کا سب سے پہلے انکشاف کل ہفتے کے روز برطانوی اخبار ’آبزرور‘ نے کیا تھا، جس کے بعد آج ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں، جہاں یوروپول کے صدر دفاتر ہیں، اس ادارے نے ایسی رپورٹوں کی باقاعدہ تصدیق بھی کر دی۔
یوروپول کے چیف آف اسٹاف برائن ڈونلڈ نے برطانوی اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ یہ اعداد و شمار ان لاوارث مہاجر بچوں کے ہیں جنہیں مختلف یورپی ممالک میں داخلے کے بعد حکام نے رجسٹر کیا تھا۔ اب لیکن یہ بچے گم ہو چکے ہیں۔
برائن ڈونلڈ کے مطابق، ’’ایسا کہنا غلط نہ ہو گا کہ 10 ہزار سے زائد بچے لاپتہ ہو چکے ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ صرف اٹلی میں گم ہونے والے ایسے بچوں کی تعداد پانچ ہزار ہے جب کہ سویڈن میں بھی ایک ہزار کے قریب مہاجر بچوں کے بارے میں اب کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
یورپی یونین کے اس پولیس ادارے کے سربراہ نے روزنامہ ’آبزرور‘ کو بتایا، ’’سبھی بچے مجرمانہ استحصال کا شکار نہیں ہوئے ہوں گے۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اپنے عزیز و اقارب کے پاس چلے گئے ہوں گے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ کچھ اپنے خاندانوں کے پاس پہنچ گئے ہوں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں یا کیا کر رہے ہیں؟‘‘
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران صرف گزشتہ برس ایک ملین سے زائد تارکین وطن پناہ کی تلاش میں یورپ پہنچے تھے۔ یوروپول کا اندازہ ہے کہ ان میں سے کم از کم ستائیس فیصد مہاجرین بچے تھے۔
یوروپول کے چیف آف اسٹاف کے مطابق، ’’ہم دو لاکھ 70 ہزار بچوں کی بات کر رہے ہیں۔ سب کے سب لاوارث نہیں تھے۔ لیکن ہمیں علم ہے کہ تنہا سفر کرنے والے نابالغ مہاجرین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔‘‘
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کا اندازہ ہے کہ گزشتہ برس اپنے اپنے خاندانوں کے بغیر اکیلے ہی یورپ پہنچنے والے تارکین وطن بچوں کی تعداد 26 ہزار سے زائد تھی۔ ان میں سے لاپتہ بچوں کی تعداد کا دس ہزار سے زیادہ ہونا بھی محض ایک عمومی اندازہ ہے اور درحقیقت یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔