دولتِ اسلامیہ کمزور ہوچکی ہے لیکن خطرناک اب بھی ہے۔ رپورٹ
2 جنوری 2021شورش زدہ ملک شام کے شمالی حصے میں واقع الہول نامی حراستی مرکز میں چونسٹھ ہزار افراد پابند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق ان علاقوں سے ہے جو داعش یا دولت اسلامیہ کا مرکز رہے تھے۔ ان میں بیشتر کا تعلق عراق اور شام سے ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان قیدیوں میں ساڑھے نو ہزار یورپی جہادی ہیں۔ویانا حملہ: ’یہ جنگ تہذیب اور بربریت کے مابین ہے،‘ چانسلر کُرسجہادی قیدیوں کے کیمپوں کی نگران سکیورٹی انتظامیہ جہادیوں کی تعداد کم کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ اس سکیورٹی انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقید کئی افراد کی سوچ اب بھی انتہا پسندانہ اور جہادی نظریات پر ہے، اگر انہیں موقع ملا تو یہ ایک مرتبہ پھر مزاحمتی سرگرمیاں شروع کر سکتے ہیں اور اس کے لیے وہ دوبارہ بھی اسلامک اسٹیٹ کی صفوں میں شامل کے پروفیسر پیٹر نیومان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ پانچ سال قبل کے مقابلے میں واضح طور اب کمزور ہو چکی ہے اور اس کا سن 2014 میں اعلان کردہ نظریہٴ خلافت بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خاص طور پر عراق میں اسلامک اسٹیٹ کی نگرانی انتہائی کڑے انداز میں کی جاتی ہے اور عراق کے ہمسایہ ملک شام میں بھی اس کو شدید عسکری دباؤ کا سامنا ہے، جس کے باعث اسے ایک مرتبہ پھر مجتمع ہونے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
سرمائے کی کمی
جاسم محمد بنیادی طور پر دہشت گردی کے معاملات کے محقق ہیں اور ایک ویب سائٹ www.europarabct.com کے نگران ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عراقی حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت صرف ساڑھے تین ہزار جنگجو عراق اور چار ہزار کے قریب شام میں موجود ہیں۔ جاسم محمد کا کہنا ہے کہ جہاں تک عراق کا تعلق ہے، وہاں دولتِ اسلامیہ بہت کمزور ہو چکی ہے اور اس کا تنظیمی حجم بھی سُکڑ چکا ہے۔
ان کے مطابق اس تنظیم کے مضبوط گڑھ چھن چکے ہیں اور یہ ایک نئے نام سے محدود سرگرمیاں ضرور جاری رکھے ہوئے ہے۔ جاسم کا عراقی حکومت کے اندرونی ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے، ''اس تنظیم کے جہادیوں کو ہتھیاروں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اب ان کے پاس ہلکے ہتھیار رہ گئے ہیں اور دنیا بھر میں مالیاتی نیٹ ورک ختم ہونے کی وجہ سے اُسے سرمائے کی بھی بہت ضرورت ہے‘‘۔جرمنی میں داعش کے نئے ارکان کی بھرتی، 18 سالہ نوجوان گرفتار
ریسرچر جاسم محمد کا کہنا ہے کہ یہ جہادی تنظیم اگر کوئی آپریشن کرتی ہے تو وہ محدود ہو گا اور اُس میں اِس کے موبائل یا گشتی گروپ شریک ہو سکیں گے، جن میں صرف دس افراد کی شرکت ممکن ہے۔ اُن کے مطابق اِن گروپوں کی سرگرمیاں تیز تر اقدام یا Rapid ایکشن تک ہی محدود ہو سکتی ہیں۔ یہ جہادی دور دراز کے علاقے جو شہروں سے دور ہیں، وہاں ہی متحرک ہیں۔ اس تنظیم اور کارکنوں کی مالی سرگرمیاں بھی مسلسل نگرانی میں ہیں۔
حامیوں کی تلاش کے نئے حربے
پروفیسر پیٹر نیومان کے مطابق خیال ہے کہ اسلامک اسٹیٹ یورپ میں ابھی زندہ ہے اور اس نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الحال یہ تنظیم اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ بڑے آپریشن جاری رکھ سکے لیکن اس کا تکیہ سابقہ ارکین پر ہے جو جنگی کارروائیوں میں شریک ہو چکے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں یورپ میں قدرے کم شدت کے حملے دیکھے گئے ہیں، جیسا کہ پیرس، نیس، ویانا اور ڈریسڈن کے حملے ہیں۔ ’جہادی جان‘ کے ساتھی، داعش کے برطانوی ارکان امریکی عدالت میں
نیومان کے مطابق ایسے حملوں سے اسلامک اسٹیٹ کا تاثر یہ ہے کہ وہ ابھی موجود ہے اور کسی بھی وقت حملے شروع کر سکتی ہے۔ یہ تنظیم اپنے پراپیگنڈے سے یورپی ممالک کی مختلف مساجد میں قائم دینی اسکولوں کے ذریعے سائبر بھرتی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
افریقی براعظم میں موجودگی
اسلامک اسٹیٹ اِس وقت خاص طور پر مغربی افریقہ اور شمالی افریقہ میں متحرک ہے۔ اس کے قیام کی ایک مرکزی وجہ لیبیا میں پیدا افراتفری اور خانہ جنگی کی صورت حال ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ سب صحارا علاقے کے اُن راستوں پر زیادہ متحرک ہے، جنہیں اسمگلر استعمال کرتے رہے ہیں۔
محقق جاسم محمد کے مطابق اِن علاقوں میں اب بھی القائدہ کو وقعت حاصل ہے اور ایسے امکانات موجود ہیں کہ مغربی افریقہ میں تمام تر انسدادی کوششوں کے باوجود دہشت گردانہ سرگرمیاں آنے والے وقت میں زیادہ شدت اختیار کر سکتی ہیں۔
کیرسٹن کنِپ (ع ح، ا ب ا)