کرنسی کا ارتقا
16 مئی 2021پیسہ پچھلے کم از کم چار ہزار سال سے انسان کے ساتھ ساتھ ہے۔ اس سے قبل لین دین کے لیے اشیاء اور اجناس کا تبادلہ بہ طور پیسہ کیا جاتا تھا۔ مگر یہ تبادلہ کوئی بہت زیادہ بااعتبار اور موثر طریقہ نہیں تھا۔ یعنی اگر آپ کو ایک بکری درکار ہے جب کہ اس کے بدلے دینے کے لیے آپ کے پاس فقط گندم ہے۔
سونے کا بنا ’امریکا‘ انگلستان میں چوری ہو گیا
کورونا وائرس: کرنسی نوٹ قرنطینہ سے باہر آگئے
اس کے لیے سب سے پہلے آپ کو ایسا بکری فروش تلاش کرنا ہو گا، جسے گندم درکار ہو۔ یعنی مسئلہ یہ ہو گا کہ اگر آپ کسی بکری فروش کے پاس گندم لے کر گئے اور اسے مثال کے طور پر ایک خنجر درکار ہے، تو پہلے آپ کو خنجر فروش تلاش کرنا پڑے گا اور پھر وہ خنجر لے جا کر بکری فروش کو دینا ہو گا۔
تبادلے کے ذریعے لین دین میں کسی شے کی موجودگی کی بجائے تمام تر دارومدار لین دین کرنے والوں کی لین دین کے لمحے میں ضرورت پر ہوتا تھا۔
کوئی واسطہ درکار
محققین کے مطابق لگ بھک نو ہزار سے چھ ہزار قبل مسیح کے وقت دنیا کے بعض علاقوں میں مویشی تک لین دین کے لیے ایک واسطے کے طور پر استعمال کیے جاتے رہے، جب کہ اس کے علاوہ بھی جانوروں کی کھال، نمک، اجناس اور دھاتوں کو تیز دھار بنانے والا مواد بھی لین دین کے لیے واسطے کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔
یہ تمام چیزیں کسی نہ کسی صورت میں قیمتی رہیں، تاہم بعد میں آنے والے نظاموں میں ان کی قدر گھٹتی چلی گئی۔ موجودہ کرنسی کے مقابلے میں یہ میڈیم اپنی طلب کی بنا پر قابل تبادلہ تھے۔ مثال کے طور پر اجناس خوراک کے لیے جب کہ جانوروں کی کھال لباس کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
تین ہزار قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا میں شیکل سکہ بہ طور کرنسی استعمال ہونا شروع ہوا جب کہ جاپان میں ایک خاص مقدار میں چاول کو 'کوکو‘ قرار دے کر جنسِ تبادلہ کے لیے استعمال کیا گیا۔
باقاعدہ سکے
تقریبا ﹰ تین ہزار سال قبل چین میں جدید کرنسی کی جانب ایک قدم آگے بڑھایا گیا۔ یہاں چھرے، کلہاڑیاں، جانوروں کی کھالوں یا دیگر اجناس کی بجائے، ان چیزوں کی علامتوں کا استعمال کیا جانے لگا۔ یعنی اصل چیز دینے کی بجائے اس کا ایک عکس۔
اسی بنیاد پر سات سو سے پانچ سو قبل مسیح میں یونان سے ہندوستان اور چین تک میں سکے رائج ہو چکے تھے۔ ہندوستان اور چین میں سکوں میں چھد کے ذریعے ان کی قدر کا تعین کیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ سکے دھاگے یا رسی کے ذریعے باندھے بھی جاتے تھے اور ان کی نقل و حمل بھی آسان تھی۔ یونانی جزیرے ایجینا پر غالباﹰ پہلا مہر والا سکا رائج کیا گیا تھا۔
اس جزیرے کے ہمسایے لیڈیا میں، جو اب مغربی ترکی کا علاقہ بنتا ہے، سونے اور چاندی کے قدرتی آمیزے یعنی الیکٹرم کے ذریعے سکے بنائے گئے، جن پر مختلف جانوروں کی اشکال بہ طور مہر استعمال کی جانے لگیں۔ اس کرنسی کو لیڈیا میں بہ طور قومی کرنسی استعمال کیا گیا اور اس کے ذریعے تجارت کا عمل شروع ہوا۔ اس طرح یہ دنیا کے امیر ترین علاقوں میں سے ایک بن گیا۔ شاید یہ دولت ہی تھی کہ سلطنت فارس نے لیڈیا پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔
کاغذی کرنسی
چھ سو قبل مسیح میں چین ہی نے کرنسی کے ارتقا میں ایک اور قدم بڑھایا۔ دھاتی سکے مہنگے اور بھاری ہوتے تھے اور ان کی تیاری بھی مشکل تھی۔ اس کے علاوہ ان کا تجارت کے لیے استعمال بھی بہت آسان نہیں تھا۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے قدیم چین نے کاغذ کا استعمال شروع کیا۔ واضح رہے کہ کاغذ چین ہی میں ایجاد کیا گیا تھا۔ تیرہویں صدی میں جب مارکو پولو چین گئے تو تب تک وہاں پچھلے اٹھارہ سو برس سے کاغذ بہ طور کرنسی استعمال ہو رہا تھا۔
یورپ 17ویں صدی تک دھاتی سکوں ہی کو کرنسی کے بہ طور استعمال کرتا رہا۔ اس دوران یورپی ممالک دنیا کے کئی ممالک تک میں فتوحات تک کر چکے تھے۔ سکوں کی تیاری اور انہیں اپنے مفتوحہ علاقوں میں پہنچانا ایک نہایت مشکل عمل تھا۔
سکوں کے برعکس کاغذ کی کرنسی کی تیاری اور ترسیل نسبتا سہل تھی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یورپی حکومتوں کی جانب سے کاغذ کا بہ طور کرنسی استعمال یورپ سے باہر ہوا۔ فرانس نے شمالی امریکا میں نوآبادیات قائم کیں، تو وہاں تک سکوں کی ترسیل ایک بڑا مسئلہ بن گئی۔ کینیڈا میں 1685 تک یورپی سپاہیوں کو گورنر کے دستخط والا کاغذ بہ طور تنخواہ دیا جاتا رہا۔
جغرافیائی طور پر سلطنتوں کا دائرہ کار وسیع ہوا، تو یورپ کا کاغذی کرنسی پر انحصار بھی بڑھنا شروع ہو گیا۔ اس کی بنیادی وجہ اقتصادی اور نوآبادیاتی وسعت تھی، جس میں دھاتی سکوں کی ترسیل آسان نہیں رہی تھی۔
سونا ایک معیار
کاغذی نوٹ دھیرے دھیرے ایک معیار بن گئے اور یوں دھاتی سکے رفتہ رفتہ ختم ہوتے چلے گئے۔ قیمتی دھاتی سکوں کے خاتمے کے باوجود کاغذی نوٹ کی قدر سونے اور چاندی کے حوالے سے بھی منسوب جڑی رہی۔ امریکا میں ڈالر کی قدر کو سونے کے ساتھ جوڑا گیا (بعض ممالک میں کرنسی کی قدر کو چاندی کے ساتھ بھی نتھی کیا گیا۔)
دوسری عالمی جنگ کے بعد تاہم امریکی ڈالر بین الاقوامی تجارت کے لیے معیار بن گیا۔ یورپ اور دنیا بھر کی کرنسی اب بھی اپنی قدر کا تعین امریکی ڈالر کی نسبت سے کرتی ہیں۔ جب کہ امریکی ڈالر کی قدر سونے کی قدر سے جڑی رہی۔
جدید کرنسی
بیسویں صدی میں اقتصادی وسعت دنیا میں موجود مجموعی سونے کے حجم سے زائد ہو گئی، تو 1971 میں امریکا نے ڈالر کے لیے سونے کی قدر کو بہ طور معیار استعمال کرنا ترک کر دیا۔
سونے کے معیار کے خاتمے کے بعد کرنسی کی قدر کا انحصار افراط زر اور اقتصادی کارکردگی سے نتھی ہو گیا۔ یعنی اب آپ کے ہاتھ میں اس وقت روپے کا یہ جو نوٹ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنے ملک کی مجموعی اقتصادیات کا ایک ٹکڑا ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سروس کی نئی سیرز ارتقا، جس میں مختلف اور عام اصطلاحات کا ارتقائی سفر تاریخ اور تحقیق کی روشنی میں صارفین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ ارتقا سیریز کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے ان لنکس پر کلک کیجیے۔