رانا،گیلانی بیانات: پی ڈی ایم کا اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف قائم؟
23 فروری 2021کچھ سیاسی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یا پی ڈی ایم کی مرکزی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر ملک کی طاقت ور ریاستی قوتوں کو رام کرنے میں لگ گئی ہیں اور موجودہ بیانات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ
پاکستان میں مسلم لیگ ن نے اقتدار سے نکلنے کے بعد ڈھکے چھپے لفظوں میں ملک کے مقتدر طبقوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بہت سے ناقدین کے خیال میں اطراف کے باہمی تعلقات میں نیشب وفراز آتے رہے۔ یہاں تک کہ ن لیگ نے جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی بھی حمایت کی۔ لیکن گزشتہ برس نواز شریف نے اچانک پی ڈی ایم کی ایک کانفرنس میں جنرل قمر باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید پر تنقید کے نشتر چلائے۔ بعد ازاں انہوں نے گوجرنوالہ کے جلسے میں بھی فوج پر تنقید جاری رکھی، جس کا ملک کے مقتدر حلقوں میں بہت برا منایا گیا۔ یہاں تک کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے بعد بھی ن لیگی کارکنوں نے فوج مخالف نعرے لگائے، جو سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیے گئے۔
جبری گمشدگیوں پر بل مسترد، کئی حلقوں کا افسوس
لیکن ابھی ان نعروں کی گونج عوام کے حافظے میں باقی تھی کہ مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ نے ملک کے طاقت ور اداروں کو کلین چٹ دے دی۔ ساتھ ہی 'سلیکٹرز اور سلیکٹڈ‘ دونوں کو سبق سکھانے کا عزم رکھنے والے بلاول بھٹو زرداری کی پیپلز پارٹی کے ایک اہم رکن اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تو جی ایچ کیو کو بالکل ہی غیر جانبدار قرار دے دیا۔ اس پیش رفت کے بعد کئی حلقوں میں پی ڈی ایم کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی حقیقت پر ایک بھرپور بحث چھڑ گئی ہے۔
'فوج کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے‘
پاکستان پیپلز پارٹی یوسف رضا گیلانی کے اس بیان کی حمایت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ تاہم ساتھ وہ اپنے اس بیانیے کا اعادہ بھی کرتی ہے، جس کے مطابق ملکی فوج کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں اور ان کا بیان سیاسی فہم و فراست کی عکاسی کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما اور سینیٹر سحر کامران نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یوسف رضا گیلانی کے بیان کے بارے میں تو انہی سے پوچھا جانا چاہیے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی پوزیشن یہ ہے کہ آرمی کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے اور آئین کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نا تو آئینی طور پر ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے خود بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ فوج کا سیاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تو ہمیں ان کی بات کو وزن تو دینا چاہیے۔ ان کے اس بیان کو صرف زبانی جمع خرچ نہیں سمجھنا چاہیے۔‘‘
پاکستانی سیاست میں درآمد شدہ کرداروں کا پتلی تماشہ
سینیٹر سحر کامران کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ پاکستانی فوج غیر جانبدار رہے۔ انہوں نے کہا، ''ہماری یہ خواہش بھی ہے اور توقع بھی، کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی آئینی حدود میں رہے گی۔ یہی بات اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کے لیے بھی بہتر ہے اور ملک کے لیے بھی۔ پاکستانی فوج پہلے ہی جان پر کھیلتے ہوئے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے لڑ رہی ہے۔ تو یہ اس کے لیے کسی بھی طور بہتر نہیں ہو گا کہ کوئی اس کو سیاست میں گھسیٹے یا اسے سیاست میں ملوث کرے۔‘‘
’نواز شریف کے بیانیے کو نہیں چھوڑا‘
پاکستان مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ اس نے نواز شریف کے بیانیے کو چھوڑا نہیں ہے اور رانا ثناء اللہ کا بیان اس بات کی عکاسی نہیں کرتا کہ پارٹی کے دل میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہو گیا ہے۔ پارٹی کے رہنما اور پارلیمانی ایوان بالا کے رکن سینیٹر جاوید عباسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''رانا ثناء اللہ کے بیان کا یہ مطلب نہیں کہ پارٹی کے دل میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہوگیا ہے۔ یہ کوئی نرم گوشے والی بات نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ رانا ثناء اللہ خود ڈسکہ میں موجود تھے اور وہاں الیکشن مانیٹر کر رہے تھے۔ وہ پنجاب کی سیاست کو سمجھتے ہیں۔ اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا اس دھاندلی میں کوئی ہاتھ نہیں، تو ہم زبردستی کسی پر الزام لگانے کے لیے تو نہیں بیٹھے۔ یہ ملک اور سیاست دونوں کے لیے اچھی بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ملوث نہیں۔‘‘
کیا پی ڈیم ایم منقسم ہو رہی ہے؟
سینیٹر جاوید عباسی کا کا مزید کہنا تھا کہ نوشہرہ میں بھی انتخابات ہوئے ہیں، ''وہاں سے بھی ہمیں یہی پتہ چلا ہے کہ انتخابات انتہائی صاف اور شفاف ہوئے ہیں، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملکی سیاست میں ملوث نہیں اور اگر ایسا ہے تو یہ ملک، سیاست اور مسلم لیگ ن سب کے لیے بہتر ہے۔‘‘
’دونوں جماعتوں کا مک مکا‘
کچھ ناقدین مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے ان وضاحتوں کو ماننے سے انکاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ سے 'مک مکا‘ کر لیا ہے اور دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے چکر میں ہیں۔ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے سابق ترجمان اور مولانا فضل الرحمان کے بہت بڑے ناقد حافظ حسین احمد نے کہا کہ نواز شریف کا بیانیہ رانا ثناء اللہ کے بیان کے بعد 'ڈوب گیا ہے‘۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف نواز شریف اسٹیبلشمنٹ پر اور پورے سسٹم پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ رانا ثناء اللہ الیکشن کمیشن کی تعریف و توصیف میں لگے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایسے کوئی شواہد ملے ہیں کہ وہاں ہونے والی دھاندلی میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی ہاتھ تھا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ن لیگ بھی اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کے چکر میں ہے اور پیپلز پارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش میں۔‘‘
مولانا کے خلاف ’بغاوت‘، اپوزیشن کا قلعہ کتنا مضبوط؟
حافظ حسین احمد کا مزید کہنا تھا کہ زرداری 'سنجرانی فارمولا‘ لے کر آنا چاہتے ہیں، ''آصف زرداری چاہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کو اسی طرح سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرا دیا جائے جس طرح صادق سنجرانی کو منتخب کروایا گیا تھا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اُس وقت تو پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھی۔ اب پی ٹی آئی یہ کیسے برداشت کر لے گی کہ یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین بن جائیں۔ عمران خان تو کافی عرصے سے خواب دیکھ رہے ہیں، کہ سینیٹ میں ان کی اکثریت ہو۔ تو پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ ہے۔ مگر عمران خان اس صورتحال کو برداشت نہیں کریں گے اور سیاسی ماحول میں آنے والے دنوں میں مزید حدت آئے گی۔‘‘
پاکستانی سیاست سبزی منڈی کی کیچڑ زدہ آڑھت کیسے؟
'اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار نہیں‘
مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے اس موقف کو خود وہ سیاسی جماعتیں بھی نہیں مانتیں، جو پی ڈی ایم کا حصہ ہیں۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم کا کہنا ہے کہ وہ اس رائے سے متفق نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ممکن ہے یوسف رضا گیلانی کو کچھ جگہوں پر ایسا تاثر ملا ہو۔ لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہوتی، تو ڈسکہ میں جو کچھ ہوا، کیا وہ ہوتا؟ یہ تو الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا ہے اور اس کی کچھ حکام نے میڈیا پر آ کر بھی بات کر دی، ورنہ اسٹیبلشمنٹ وہاں اپنے من پسند فیصلے کر لیتی۔‘‘
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس صورت حال نے جے یوآئی ایف اور پی ڈی ایم میں شامل دوسری اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعتوں کے لیے ایک عجیب صورت حال پیدا کر دی ہے اور وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر ن لیگ اور پی پی پی کیا چاہتی ہیں؟ کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس صورت حال سے پی ڈی ایم کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو دھچکا لگے گا اور عوام یہاں تک کہ خود مسلم لیگ ن کے کارکن بھی اس بیانیے کو شبے کی نظر سے دیکھیں گے۔